وہ مشہور اورنمبر ون امریکی اداکارہ جس کو قران سے محبت کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی،اب کہاں اور کس حال میں ہے؟جانیے اس خبر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 17, 2016 | 23:26 شام

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی فنکارہ لنڈسے لوہان نے کہاہے کہ مجھے قرآن پاک کامطالعہ کرنے اورسکارف پہننے کی وجہ سے اپنے ہی وطن میں میرے قریبی دوستوں نے تنقید کانشانہ بنایا۔انہوں نے کہاکہ قرآن پاک کامطالعہ کرنے سے مجھے معلوم ہواکہ اس دنیاکوجس نے بنایاوہ سب سے زیادہ طاقتورہے اورمجھے قرآن کامطالعہ کرنے کے بعد محسوس ہواکہ مجھ میں کوئی تبدیلی ہوئی اوراس کااثرمیری عادات پربھی پڑااورمیں نے سکون محسوس کیا۔ایک ترک ٹی وی کوانٹرویودیتے ہوئے لنڈسے لوہان نے کہاکہ زندگی تجربات کانام ہے اورلندن منتقل ہ

ونے کافیصلہ بہت پریشان کن فیصلہ ہے لیکن ایسے فیصلے کرناپڑتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ امریکہ میں تما م افراد خطرناک نہیں ہیں لیکن کچھ افراد متعصب ہیں جن کی وجہ سے میں نے لندن منتقل ہونے کافیصلہ کیاجوکہ میراایک بہترین فیصلہ تھا۔انہوں نے کہاکہ ترک صدرطیب اردگان جیسے لوگ قابل تحسین ہیں ۔انہوں نے کہاکہ مجھے قرآن پاک کامطالعہ کرنے سے دلی سکون حاصل ہواہے ۔انہوں نے کہاکہ ترکی کے لوگ طیب اردوان کےلئے گھروں سے باہرآئے جوکہ قابل تحسین ہے ۔۔انہوں نے کہا ‘ وہ تو میں بس پکڑ کر چل رہی تھی، ایک پاپا رازی (فوٹوگرافر) پوری گلی میں موجود تھا اور اس پر امریکہ والوں  نے مجھے سولی پر چڑھا دیا، انہیں مجھے کچھ ایسا بنا دیا جیسے میں شیطان ہوں یا قرآن پکڑنے پر میں بری عورت بن گئی ہوں، میں اس بات پر خوش ہوں کہ اس واقعے کے بعد میں لندن چلی گئی کیونکہ میں خود کو اپنے ملک میں غیرمحفوظ محسوس کرنے لگی تھی، میرا ماننا ہے کہ اگر میں کچھ جاننا چاہتی ہوں تو وہ میری اپنی مرضی ہے، وہ کسی اور کے سامنے اظہار کے لیے نہیں۔لنڈسے لوہان کی ہنگامہ خیز برسوں سے عوام کی نظر میں ہے، وہ بتاتی ہیں کہ لندن اور سعودی عرب میں ان کے قریبی دوستوں نے انہیں قرآن مجید دیا تھا کہ امریکا میں جس مشکل وقت کا وہ سامنا کررہی ہیں، اس کے لیے مدد مل سکے ‘ انہوں نے مجھے قرآن دیا اور میں اسے نیویارک لے آئی کیونکہ میں اس سے سیکھ رہی تھیں اور میرے لیے تجربے اور روحانیت کے دروازے کھل رہے تھے جس سے میں نے دیگر حقیقی معانی جانے ۔مگر ذہنی اذیت کا سامنا کرنے پر انہیں سمجھ میں آیا ‘ جو خواتین حجاب پہنتی ہیں وہ مختلف کیوں نظر آتی ہیں، کیونکہ وہ خود کو اجنبی محسوس کررہی ہوتی ہیں اداکارہ وضاحت کرتی ہیں ‘ جب اس خاتون نے مجھے حجاب پہنایا تو مجھے اعزاز کا احساس ہوا کیونکہ اس خاتون نے مجھے اپنے انداز سے اپنی ثقافت کا حصہ بننے کا موقع دیا، حالانکہ میں اس کے لیے اجنبی تھی۔وہ تسلیم کرتی ہیں کہ حجاب پہننے سے پہلے انہوں نے کئی بار سوچا کہ میڈیا اس کی عکاسی کیسے کرے گا اور انہیں ڈر تھا کہ اس غلط انداز سے پیش کیا جائے گا اور حقیقت چھپ جائے گی ‘ اسے شہ سرخیوں میں آنا ہی تھا کیونکہ ترکی میں یہ کسی خاتون کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ حجاب پہنے یا نہ پہنے، یہاں یہ حیرت انگیز امر ہے کہ آپ کو اپنی پسند کے انتخاب کا موقع ملتا ہے اور اسے قبول بھی کیا جاتا ہے، جبکہ امریکا میں، جب میں نے قرآن مجید کو ہاتھ میں لیا تو  مجھے شیطان بنا دیا گیا  جس کا مجھے دکھ ہے۔