والدین کی تفریق بچوں کی شخصیت مسخ کردیتی ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 25, 2016 | 19:59 شام

لندن (شفق ڈیسک) اہم اور خاص محبت والدین اور اولاد کے درمیان ہوتی ہے جو دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور تا عمر رہتی ہے۔ انسان محبت اور توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ محبت دلوں کو سکون بخشتی ہے۔ جو انسان خود کو پسند کرتا ہے، وہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اسے پسند کریں۔ محبت چاہے، والدین کی ہو یا بہن بھائی کی، دوستوں کی ہو یا رشتے داروں کی، انسان ہر محبت کا طلب گار ہوتا ہے، لیکن سب سے اہم اور خاص محبت والدین اور اولاد کے درمیان ہوتی ہے، جو دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور تا عمر رہتی

ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ والدین کی جتنی بھی اولاد ہو، وہ سب ہی سے محبت کرتے ہیں، لیکن پہلی اور آخری اولاد کو والدین زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے درمیان والے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پہلوٹھی کی اولاد چاہے بیٹی ہو یا بیٹا، والدین اسے خصوصی توجہ دیتے ہیں، لیکن جب دوسرے بچے ہو جاتے ہیں، تو دوسرے بچے نظر انداز ہونے لگتے ہیں۔ یہ بات بچوں کے ذہن پہ گہرا اثر ڈالتی ہے۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے جو سکھاؤ، وہ سیکھ جاتے ہیں۔ انکے کچے ذہن میں جو بات ڈالی جائے، وہ انکے دماغ میں رچ بس جاتی ہے۔ والدین کسی ایک بچے کو اپنے دوسرے بچے پر فوقیت دیتے ہیں، تو بچہ اس بات کو بہت شدت سے محسوس کرتا ہے۔ یہ بے چینی اس کے رویے اور مزاج سے جھلکتی ہے، وہ ماں باپ کے اس رویے کی شکایت بھی کرات ہے، کبھی بہت زیادہ دل برداشتہ بھی ہوتا ہے، لیکن شاید والدین اسکی کیفیت کو نہیں سمجھ پاتے۔ اسطرح بچے کی معمول کی کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اسکا کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا۔ نہ اسکا دھیان پڑھائی کیطرف ہوتا ہے اور نہ گھر میں وہ کسی کیساتھ بات کرتا ہے۔ والدین کی نظراندازی کی وجہ سے بچوں میں خود اعتمادی کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے، اسکے اندر یہ احساس بیدار ہوتا جاتا ہے کہ اسکے والدین اس سے اسطرح سے پیار اور محبت نہیں کرتے جسطرح اپنی باقی اولاد سے کرتے ہیں۔ بچہ اگر کسی معاملے میں والدین سے ضد کرتا ہے، تو اسے صاف انکار سننا پڑتا ہے، لیکن اگر وہی بات اسکے دوسرے بہن بھائی کرتے ہیں، تو فوراً مان جاتے ہیں۔ یہ بات اس بچے کو اندر سے توڑ دیتی ہے، کبھی وہ خود سے نفرت کرنے لگتا ہے، کبھی بغاوت پر آمادہ ہوتا ہے، جب وہ باہر نکلتا ہے اور دوسروں کا سامنا کرتا ہے، تو اسے اپنے اندر ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپکو دوسروں سے کم تر سمجھتا ہے۔ اتنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی وہ خود کو تنہا سمجھتا ہے۔ یہی باتیں اسے آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ والدین کا سلوک اسے اندر ہی اندر مارتا ہے۔کچھ بچے اس بات کو اتنا زیادہ محسوس نہیں کرتے لیکن جنہیں یہ احساس ہو جائے تو پھر عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہاں تک کہ انکی شخصیت کا ایک منفی رخ بن جاتا ہے۔ کچھ بچے تو اس بات کو اتنا زیادہ دل پہ لیتے ہیں کہ انہیں نہ صرف دنیا والوں سے بلکہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ ایسے بچوں میں خودکُشی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کیساتھ برابری کا سلوک نہیں کرتے۔ بڑے بچوں کو چھوٹوں پر یا بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاڈلے بچے، والدین کے بے جا پیار اور دوسرے بچوں کی حق تلفی سے ضدی، ہٹ دھرم اور خود سر بن جاتے ہیں، جبکہ دوسرے بچے احساس کم تری کا شکار ہو کر والدین سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ یقیناً والدین جان بوجھ کر کسی بچے کو نظرانداز نہیں کرتے، اکثر نادانستگی میں انکے رویے ایسے ہوجاتے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہو پاتا۔ اسکے بعد وہ بچوں کی بدتمیزی پر شکوہ کرتے ہیں کہ پتا نہیں بچے کیوں خودسر ہو رہے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں پر غور کریں اور کسی بچے کی حق تلفی نہ ہونے دیں، انکی ایسی شکایات کا فوری ازالہ کریں اور سب سے یک ساں سلوک کریں۔ سب کی باتوں کو توجہ سے سنیں اور وقت دیں۔ والدین محبت کے ذریعے اپنے بچوں سے خاص تعلقات بنا سکتے ہیں۔