پہلے طبی ماہرین آنکھوں، دماغ، دل اور جگر کے ٹشوز کے ڈی این اے کو بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 19, 2016 | 16:27 شام

لندن (شفق ڈیسک) سائنسدانوں نے ڈی این اے کی تدوین (ایڈٹ) کا نیا طریقہ دریافت کر لیا جس سے دماغ کے متاثرہ جینز کو ٹھیک کرنے سمیت ناقابل علاج سمجھے جانیوالے امراض کے علاج کو ممکن بنایا جا سکے گا۔ میڈیا رپورٹس کیمطابق یہ دعویٰ امریکا میں ہونیوالی ایک تحقیق کے دوران سامنے آیا۔ اس پیشرفت کو جینیاتی دنیا کا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے جسکی مدد سے بینائی سے محروم چوہوں کی بینائی کو جزوی طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ عارضہ ہے جو انسانوں کو بھی لاحق ہوتا ہے۔ اس سے قبل طبی ماہرین آنکھوں، دماغ، دل اور

جگر کے ٹشوز کے ڈی این اے کو بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ مگر اس نئی تکنیک کے ذریعے ماہرین کو پہلی بار ایسا کرنیکا موقع ملا اور اس سے عمر بڑھنے کیساتھ لاحق ہونیوالے متعدد امراض کے نئے علاج کو مرتب دینے میں بھی مدد ملے گی۔ سالک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم اس دریافت ہونیوالی ٹیکنالوجی کے حوالے سے کافی پرجوش ہیں کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور اسکا اطلاق کافی شعبوں میں ہو سکے گا۔ بالغ جسم کے بیشتر ٹشوز تقسیم نہیں ہوتے جسکی وجہ سے سائنسدانوں کیلئے ڈی این اے میں تبدیلی لانا بہت مشکل ثابت ہوتا تھا مگر اب پہلی بار وہ ان تقسیم نہ ہونیوالے خلیات میں داخل ہو کر انکے ڈی این اے کی شناخت کے قابل ہو گئے ہیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ اب کوئی مرض لاعلاج نہیں رہیگا، کیونکہ پہلی بار ہمیں ان بیماریوں کے علاج کا خواب دیکھنے کا موقع ملا جنکا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور یہ واقعی پرجوش کر دینے والا ہے۔ اس تکنیک کو HITI کا نام دیا گیا ہے جو کہ گزشتہ سال کی سب سے بڑی طبی تکنیک کریسپر پر مبنی ہے۔