خطرات بھرا مارچ....کمیشن کہانی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 10, 2022 | 18:55 شام

سیاسی حالات نے سلگنا تو عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل شروع کردیا تھا۔ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو حالات کی ابتری نے معیشت کو جکڑنا شروع کر دیا۔ آج عروج پر پہنچی ہوئی مہنگائی: بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتیں سیاسی عدم استحکام کا شاخسانہ ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا سیاسی استحکام میں مسلمہ کردار ہے۔چھوٹی سے چھوٹی پارٹی احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے سیاسی صورت حال کو اُلجھا دیتی ہے۔ بڑی پارٹی اگر ایسا کرے تو وہی کچھ ہو سکتا ہے جو آجکل پاکستان میں ہو رہا ہے۔
گزشتہ چند

روز میں رونما ہونے والے واقعات نے توپاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان میں سب سے ہولناک عمران خان پر لانگ مارچ کے دوران حملہ ہے۔ 3نومبرکو یہ حملہ لاہور سے اسلام آباد کی طرف رواں مارچ کے ساتویں روز وزیر آباد کے قریب ہوا۔ عمران خان کے بقول ان کی دائیں ٹانگ میں چار گولیاں لگیں جبکہ بائیں بھی معمولی سی زخمی ہوئی۔ اس حملے سے قبل 23 اکتوبر کو عمران خان کے مؤقف کے سپورٹر اینکرپرسن ارشد شریف کو کینیا میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ پاکستان میں بغاوت اورغداری سمیت 16مقدمات کی زد میں آنے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے وہ ان حالات میں دبئی چلے گئے۔ دبئی سے کینیا گئے تو وہاں پولیس کے بقول غلط شناخت کے باعث ان پر فائرنگ کی گئی۔پاکستان سے انوسٹی گیشن کیلئے دو رکنی ٹیم کینیا گئی واپسی پر اس ٹیم کی رپورٹ کاجائزہ لینے کے بعد وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ ارشد شریف کو ٹاگٹ کرکے قتل کیا گیا،کینیا کی پولیس کا موقف درست نہیں لگتا۔اب میڈیا میں ایک غوغاہے کہ قتل سے پہلے تین گھنٹے تک ان کو بدترین غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 
پی ٹی آئی کے سینٹراعظم سواتی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر ایک طنزیہ ٹویٹ کیا جس پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوااور گرفتاری ہوئی۔ ان کے بقول گھر میں گرفتاری کے دوران ان پر تشدد کیا گیا۔ سواتی کے بقول ان کو حراست کے دوران بے لباس بھی کیا گیا۔ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو بد ترین ظلم قرار دیا۔ وہ پریس کانفرنس پر پریس کرنے لگے جس میں عالمی اداروں کو داد رسی کے لیے پکارتے رہے۔ انہوں نے ایک موقع پر آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر اور سیکٹرکمانڈر بریگیڈیئر فہیم کا نام بھی لے دیا۔ان کی4 اکتوبر کی پریس کانفرنس رُلا دینے والی تھی جس میں انہوں نے کوئٹہ میں دو روزہ قیام کے دوران بنائی گئی ویڈیو کا ذکر کیا جو ان کی اہلیہ ، بیٹی اور بیٹے کو بھجوائی گئی۔ یہ ان کی اپنی اہلیہ کے ساتھ پرائیویٹ ویڈیو تھی۔ ایف آئی اے نے اسے جعلی قرار دیا۔ اس کانفرنس کے دوران اعظم سواتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے۔
 عمران پر حملہ تین نومبر کو ہوا۔ انہوں نے اسی روز رات کو تین ملزم نامزد کر دئیے ۔ ان میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور آئی ایس آئی کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر شامل تھے۔ پولیس کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کیاگیا۔ 7نومبرکو سپریم کورٹ کی طرف سے عمران خان پر توہین عدالت کی سماعت کے دوران پولیس کو چوبیس گھنٹے میںایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا گیا۔ وزیر آباد پولیس نے حملہ آور نوید پر عمران خان ، ان کے ساتھیوں کو زخمی اور معظم کے قتل کرنے کا مقدمہ درج کر لیا۔ حکومت کی طرف سے ملزم کو مذہبی جنونی قرار دیا گیا۔ عمران خان کے بقول حملہ آور دو یا دوسے زیادہ تھے۔ 
عمران خان کی طرف سے میجر جنرل فیصل کو ارشد شریف کے قتل اعظم سواتی پر تشدد اور اپنے اوپر ہونے والے حملے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ ان کو موردِ الزام ٹھہرانے پر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کی طرف سے ان الزامات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے حکومت سے جھوٹوں کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی۔جس پر حکومت کی طرف سے کارروائی شروع کردی گئی۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے عمران خان پر حملے کیخلاف چیف جسٹس کو فل کورٹ کمیشن بنانے کیلئے خط لکھاگیا۔اسی نوعیت کا دوسرا خط ارشد شریف قتل پر کمیشن تشکیل دینے کیلئے لکھا گیا ہے۔قطع نظر اس کے کہ ہردوکمیشنوں کے جو بھی ٹی اور آرز ہونگے اور کمیشن کس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔سفارشات پبلک ہوتی ہیں یا نہیں۔حکومت مخالف فریق کی دونوں کیسز میں رائے مخفی نہیں۔ان کی طرف سے اداروں کو ان دو کیسز کے علاوہ اعظم سواتی کے معاملے میں بھی قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔حمودالرحمٰن کمیشن کے روبرو دو سو تیرہ افراد کے بیانات قلمبند ہوئے تھے۔اس کمیشن کی کبھی سرکاری طور پر رپورٹ سامنے نہیں آسکی مگر اقلیم اختر عرف جنرل رانی کے یحیٰ خان کے ساتھ تعلقات سمیت گواہوں نے جو کچھ کہا وہ طشت ازبام ہوگیا۔مذکورہ کمیشنوں کے سامنے گواہ جو کچھ کہیں گے اس سے اداروں کی ساکھ اور آبرومزید متاثر ہوگی۔
 عمران خان ہسپتال سے سات نومبر کی شام کو ڈسچارج ہوئے۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس 6نومبرکو، دوسری سات کو کی، جس میں لانگ مارچ کو وزیر آباد سے شروع کرنے کا اعلان کیا۔گزشتہ روز یہ لانگ مارچ شروع ہوچکا ہے۔ڈاکٹرز نے عمران خان دو ہفتے ریسٹ کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ آخری روز راولپنڈی میں لانگ مارچ میں شامل ہوں گے۔ عمران خان پر حملہ کس نے کرایا؟ کیوں کرایا؟ حملہ آور واقعی جنونی تھا یا یہ سازش تھی؟ اس سے پردہ تو تحقیقات کے بعد ہی اُٹھ سکتا ہے۔ جس کا امکان ماضی میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں تو کم ہی نظر آتا ہے۔ البتہ عمران خان کی زندگی کو بدستور خطرات لاحق ہیں وہ ایسے اجتماعات میں شرکت سے گریز کریں۔ایسی بہادری کی ضرورت نہیں جو ان کی جان لے سکتی ہو۔ بینظیر بھٹو کو بھی ان کے بہی خواہوں نے یہی سمجھایا تھا اور زیادہ زور18اکتوبر2007ء کے حملے کے بعد دیا تھا جس میں ڈیڑھ سو زائدلوگ مارے گئے اس کے بعد27دسمبر کو بے نظیر کے دشمنوں نے ان کے بچ نکلنے کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔عمران خان ایک مہلک حملے میں بال بال بچ نکلے ہیں۔ لانگ مارچ کے دوران تین نومبر کے مقابلے میں بڑا سانحہ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ نے دو ہفتے میں پنڈی اسلام آباد آہستہ روی سے پہنچنا ہے۔ اس روز وہیں کے لیے کال دے دیں۔ خطرات سے جس حد تک ممکن ہے محفوظ رہنے کی کوشش کریں۔