نیا مال آیا ہے آج کوٹھے پر۔۔۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 20, 2017 | 15:57 شام

"کیوں بے چرسی! کوئی مرغی پهنسی؟ "
بلو بائی نے چهالیہ کترتے ہوئے گلو سے پوچها جو بائیں کی کهنچیاں کس رہا تها...
"نہیں خانم...دانے ڈال رکهے ہیں جا بجا....کبهی تو کوئی پهنسے گی....وه ہاتھ سے پهسلتے طبلے کو ماں کی گالی دے کر پهر ٹهیک کرنے میں جٹ گیا...
دلربا نے ترچهی غلط نظروں سے اسے دیکها...
 "ارے بهوندو". ..بلو بائی پهر گویا ہوئی..."یہی تو ٹیم ہے تیرا سالے....تیرے ساتھ کا قاسم نہیں....گلنار بائی والا...ایک چهوڑ تین تین چهوکریاں گانٹھ لا

یا....مزے سے دام کهرے کئے..اب نئی گاڑی میں پهرتا ہے..
 "خانم...کوشش تو میں بهی اپنی جگہ کر دہا ہوں...وہ چاندنی چوک نہیں صادق آباد والا....اسکے نکڑ پہ چهجے والے مکان کے بهیتر بیوہ رہتی ہے اسکی اکلوتی لڑکی اور وہ....
کتنے دنوں سے لڑکی کو پٹا رہا ہوں....لڑکی ہے کہ پری کا بچہ."۔۔۔۔۔۔۔
 "سنبهل کے بچو جی...دهیرج سے...شریفوں کا محلہ ہے..." استاد جی نے گرہ لگائی...اور طنبورہ رکھ دیا.کمرہ فانوس کی روشنی سے جگمگ جگمگ کر رہا تها....
"ماں کپڑے سی سی کر لڑکی کو پڑها رہی ہے....لڑکی...نری بدهو. .آنکھ اٹها کر دیکهتی نہیں"
"ہم بهی جوتیاں چٹخاتے تهک کر بیٹھ رہے"
 "ہم دلی تم آگرے تو کیسے بجے گی بانسری؟ .بلو بائی نے ہونٹ پچکا کر اگال دان میں تهوکا، پهر حسن دان کے چهوٹے سے آئینے میں خود کو دیکهنے لگی...
"ارے قاسم تو کدهر؟"
"بلو بائی...مال لایا ہوں...قسم سے، دیکهو گی تو سچ مچ پهڑک اٹهو گی"
"کون ہے نگوڑی؟"
"خانم .وه نہیں..چاندنی چوک میں صادق آباد کے نکڑ کا چهجے والا مکان....وہاں رہتی تهی دکهیا. ..
آج خود آ گئی میرے کنے...بولی..میرا جو کچھ چاہے لے لو، مجهے صرف دس ہزار دے دو"
"دس ہزار؟"
"یہی تو میں بولوں....
میں نے کہا ...یہ سورج مغرب سے کیسے نکل آیا شہزادی؟. .دس ہزار تم پہ واری کر دوں...خیریت؟"
پھر وہ بولی  "خیریت ہی تو نہیں، ماں تین دن کے فاقے سے مر گئی...اسے دفن کرنا ہے...محلے والے آتے رہے .افسوس کر کے جاتے رہے...
 ماں کی بو دیتی لاش اب مجه سے دیکهی نہیں جاتی"۔۔۔۔۔۔

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔