وزیر اعظم پاکستان بننے کی خواہشمند ملالہ یوسفزئی کا پورا خاندان برطانیہ میں کیوں مقیم ہے اور وہاں انکی سرپرستی کون کر رہا ہے ؟ بڑا انکشاف ہو گیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 18, 2017 | 07:20 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) پہلی مرتبہ  میڈیا سے بات کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی کی والدہ تورپکئی یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جب ملالہ پر حملہ ہوا تو ان کے لیے وہ کڑا وقت تھا، مگر اس حال میں بھی انھوں نے اللہ سے حملہ آور کو ہدایت دینے کی دعا کی۔

تورپکئی نے کہا کہ ’میں نے اس حال میں بھی حملہ آوروں کے لیے بد دعا نہی

ں کی۔ بلکہ میں نے کہا کہ خدا ان لوگوں کو ہدایت دے۔تورپکئی نے کہا کہ اگرچہ ملالہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں مگر انھوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ ملالہ کی ماں ہیں 'نہ کہ ان دہشت گردوں کی جو خود کو اور دوسرے کو مار ڈالتے ہیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ اُن حملہ آوروں کی مائیں کتنی افسردہ ہوں گی کہ ان کے بیٹوں نے ایک نہتی بچی پر گولی چلائی۔'

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے گِڑگڑا کر اللہ سے دعا مانگی کہ وہی ملالہ کو زندگی دینے والا ہے۔ 'مجھے رہ رہ کر یہ خیال آ رہا تھا کہ سکول جانے سے پہلے میں نے کسی بات پر ملالہ کا دل تو نہیں دکھایا تھا۔تورپکئی اب برطانیہ کے شہر برمنگھم اپنے شوہر ضیاالدین یوسفزئی، اور تین بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ فیس بک پر خالد خان کے ایک سوال کہ سوات کتنا یاد آتا ہے، انھوں نے کہا کہ وہاں کی یاد انھیں بہت ستاتی ہے۔ خاص طور پر اپنی ضعیف والدہ کی یاد بہت آتی ہے۔اس سوال پر کہ بچپن میں ملالہ شریر تو نہیں تھیں، تورپکئی نے کہا کہ وہ بہت صابر اور شاکر بچی ہے۔ اس نے انھیں کبھی تکلیف نہیں دی۔ملالہ کے بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے کہا: 'ہم لوگ منگورہ میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ننھی ملالہ اپنی دادی سے ملنے شانگلہ گئی تو ان سے کہا کہ باتیں تو بہت ہیں جو میں آپ کو بتا سکتی ہوں، مگر امّی نے منع کیا ہے کہ گھر کی باتیں کسی سے مت کہنا!'

تورپکئی نے بتایا کہ وہ برطانیہ ہی میں زیر تعلیم ہیں۔ اور وہ اس بات پر خدا کی شکرگزار ہیں کہ ان کی زندگیاں محفوظ رہیں، 'کیوں کہ ہماری وجہ سے کسی کو نقصان پہنچتا تو بہت مشکل ہو جاتی۔اس موقعے پر ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے کہا کہ کائنات اور شازیہ ویلز میں زیر تعلیم ہیں۔ اور چھٹیوں میں وہ ان کے گھر جاتی ہیں۔ اور یہ کہ وہ بھی تعلیم کے لیے ملالہ کی مہم کا حصہ ہیں۔

تورپکئی نے کہا کہ 'لڑکیاں بوجھ نہیں ہیں، ہم نے انھیں بوجھ بنا دیا ہے۔ بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ عورت بچوں کی پرورش اور تربیت کرتی ہے، اس لحاظ سے وہ زیادہ طاقتور ہے۔ فرق صرف قلم کا ہے۔ لڑکی کو کوئی قلم نہیں دیتا، اس لیے وہ اندھیرے میں رہتی ہے۔ میری سب سے یہ درخواست ہے کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں۔'

لوگوں کے منفی رویے اور غیر شائستہ زبان کے بارے میں تورپکئی کا کہنا تھا کہ اندھیرے کے بغیر روشنی کی قدر کیسے ہوتی اور برے لوگوں کے بغیر اچھوں کی پہچان کیسی ہوتی۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'گرمیوں میں لوگ سورج کو برا کہتے ہیں، مگر سردیوں میں اس کی گرمی کی خواہش کرتے ہیں۔ ملالہ کو جو مقام اللہ دیا ہے وہ بعض لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا ہو گا۔ انھیں بھی آزادی ہیں اپنی بات کہنے کی۔