سپاہی مقبول حسین، ایک بہادر سپاہی کی داستان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 29, 2020 | 19:59 شام

ستمبر ٢٠٠٥، واہگہ بارڈر کے راستے بھرتی حکام نے پاکستانی قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا . اس گروپ میں مختلف نویت کے قیدی تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں ان کا کچھ سامان تھا لیکن اس گروپ میں ایک ایسا بھی پاکستانی تھا جس کے ہاتھوں میں کوئی سامان نہ تھا ۔ جسم پر ہڈیوں اور اس کے ساتھ چمڑی ہی کھال کے علاوہ گوشت کا نام و نشان نہ تھا ۔ جسم مڑا ہوا ور سر کے بے ترتیب بال اس بات کا ثبوت تھا کہ طویل وقت س

ی ان بلوں نے تیل اور کنگھی کی شکل نہیں دیکھی۔ اور دکھ کی بات تو یہ کے پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہی تھی. لیکن ان سب کے بعد اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی .
پاکستانی حکام کی جانب سے ابتدائی کروائی کا بعد ان تمام قیدیوں کو فارغ کر دیا گیا ۔ سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ۔ لیکن یہ بڑھا قیدی اپنے گھر جانے کے بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ، کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وو ٹوٹے ٹوٹے الفاظ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے غریب سائل سمجھ کے اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ اور یوں ٢٠٠٥ میں یہ بڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا ۔ وہا پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوہ کر دیا ۔ اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی اس بڑھے ناتواں شخص میں نہ جانے کہا سے اتنی طاقت آ گئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا۔ اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوے الفاظ میں لکھا،
“سپاہی مقبول حسین، نمبر ٣٣٥١٣٩ ، ڈیوٹی پر آ گیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے۔”
کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں ، شخص کے اس دعوے نے چکرا کر رکھ دیا ۔ کمانڈر کبھی اس کاغذ پر لکھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی تارہا اسے سلیوٹ کیا تھا ۔ کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھی ہے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کو کھولا گیا اور اس شخص کے رشتے داروں کو ڈھونڈ کر لیا گیا تو ایک دل دہلا دینے والی داستان سامنے آئی۔ یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں فیتوں اور اسٹارز والے بھی اس شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے۔
اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا ۔ ١٩٦٥ کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کپتان شیر خان کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلہ کے ایک ڈپو کو تباہ کر کے واپس آ رہا تھا کہ اسی دوران اس کی دشمن سے جھڑپ ہو گئی۔ سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھے ہوے تھا۔ اپنے افسران سے پیغام رسائی کے فرائض کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں اٹھائی مشین گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا اور اسی دوران وہ مقابلے میں زخمی ہو گیا ۔ سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہے کہا:
میں زخمی حالت میں آپ پر بوجھ بننے کے بجاے دشمن کا مقابلہ کر کے آپ لوگو کے لیے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں ۔ مگر ساتھیوں نے پھر بھی سپاہی مقبول حسین کو ان کے ساتھ چلنے کے لیے اسرار کیا ۔ ساتھیوں کا اسرار دیکھ کر سپاہی قبول حسین نی ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کر لیا ۔ دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے، لہذا قبول حسین نے دشمن کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیا . اسی دوران دشمن کا ایک گولہ لگنے سے وو شدید زخمی ہو گئے . اور بیہوش ہو کر گر پرے . اور دشمن نے انہیں گرفتار کر لیا. جب جنگ ختم ہی تو دونو ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا اس دوران بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکر نہ کیا ۔ اس لیے پاک فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کر لیا . بہادر شہیدوں کی بنی گئی ایک یادگار پرے بھی اس کا نام کندہ کر دیا گیا۔
دوسری طرف بھارت ایک خوبصورت اور کڑیل جسم کے ملک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کے لیے اس پر شدید تشدد کرتے رہے ۔ اسے ٤ فٹ کی ایک کوٹھری میں بینڈ کر دیا گیا، جہاں وو نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا ۔ دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ نہ اگلوا سکا ۔
سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارت فوجی افسروں کو پاگل کر دیا ، جب انھوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو اپنی تسکین کے لیے اس کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے کہو پاکستان مردہ آباد ، اور سپاہی مقبول حسین اپنی سری توانائی اکٹھی کر کے زور سے نعرہ مارتا “پاکستان زندہ آباد” جو بھرتی فوجیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا . وہ تعیش میں آ کر چلانے لگتے اور سپاہی مقبول حسین کو پاگل پاگل کہنے لگ جاتے کہ یہ پاگل پاکستانی فوجی اپنی جان کا دشمن ہے۔ سپاہی مقبول حسین جواب دیتا:
“ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے ایک ایک زرے کے لیے پاگل ہوں . اپنے ملک کے ایک ایک کونے کے دفاع کے لیے پاگل ہوں ، ہان میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت اور وقار کے لیے۔”
سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے ۔ آخر انھوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا اور سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی ۔ اور پھر سے ٤ فٹ کی اندھیری کوٹھری میں ڈال کر بند کر دیا ۔ سپاہی مقبول حسین نے ١٩٦٥ سے لی کر ٢٠٠٥ تک اپنی زندگی کے بہترین ٤٠ سال اس اندھیری کوٹھری میں گزار دئیے۔ اب وو کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنی جسم پر پہنے کپڑوں کی چیتھڑوں کی مدد سی کوٹھری کی دور کے ایک کونے کو صاف کرتا اور اپنے جسم سی رستے خون کی مدد سی وہا پاکستان زندہ آباد لکھ دیتا۔ یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبّت کے پاگل پن میں گزارتا رہا۔
آئیں ہم بھی مل کر اسے پاگلوں کو سلیوٹ کریں ۔ کیوں کہ یہی لوگ ہماری قوم کے اصل ہیرو ہیں۔ جنھیں پوری پاکستانی قوم سلام پیش کرتی ہے