مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 25, 2017 | 08:42 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک / تحریر: پروفیسر ڈاکٹر ابرار حسین ساقی):حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث معراج بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھرمیں براق پر سوار ہوا حتیٰ کہ میں بیت المقدس پہنچا۔ پھرمیں نے براق کو اس حلقہ میں باندھ دیا جہاں انبیاءعلہیم السلام کی سواریاں باندھی جاتی ہیں پھرمیں مسجد میں داخل ہوا اور میں نے وہاں دورکعت نماز پڑھی۔ پھرمیں مسجد سے باہر آگیا پھرمیرے پاس جبرائیل علیہ السلام ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آگئے میں نے دودھ لے لیا توجبرائیل نے کہا آ

پ نے فطرت کو اختیارکرلیا پھرہمیں آسمان کی طرف معراج کرائی گئی ۔ (صحیح مسلم :رقم الحدیث 162)
اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم کوبراہ راست آسمانوں کی طرف کیوں نہیں لے جایا گیا درمیان میں مسجد اقصیٰ کیوں لے جایا گیا اس کی حسب ذیل حکمتیں ہیں:
1۔ اگرنبی کریم ﷺ صرف آسمانوں پر جانے کا ذکرفرماتے تومشرکین کے لئے اطمینان اور تصدیق کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا کیونکہ آسمانوں کے طبقات اور درجات سدرہ اور سدرہ سے اوپرکے حقائق مےں سے کوئی چےز ان کی دےکھی ہوئی تھی نہ انہےں اس کے متعلق کوئی علم تھا، لےکن مسجد اقصیٰ ان کی دےکھی ہوئی تھی توجب آپ نے یہ فرمایا کہ میں رات کے ایک لمحے میں مسجد اقصٰی گیا اور واپس آگیا اور ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ آپ اس سے پہلے مسجد اقصی نہیں گئے ہیں تو انہوں نے آپ سے مسجد اقصیٰ کی نشانیاں پوچھنی شروع کیں اور جب آپ نے سب نشانیاں بتادیں توواضح ہوگیا کہ آپ کے دعویٰ کا اتنا حصہ توبہرحال سچا ہے کہ آپ مسجد اقصیٰ جاکر واپس آئے ہیں جب کہ بظاہر یہ بھی بہت مشکل اورمحال تھا توپھرآپ کے دعویٰ کے باقی حصہ کا بھی صدق ثابت ہوگیا کیونکہ جب آپ رات کے ایک لمحہ میں مسجد اقصیٰ تک جاکرواپس آسکتے ہیں اور پھرآسمانوں تک جاکر بھی واپس آسکتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد اقصیٰ کی نشانیوں کے متعلق سوالات اور آپ کے جواب دینے کا ذکرحضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب قریش نے مجھے جھٹلایا تومیں حطیم میں کھڑا ہوگیا۔ اللہ نے میرے لئے بیت المقدس منکشف کردیا تومیں بیت المقدس کی طرف دیکھ دیکھ کر ان کو اس کی نشانیاں بتارہا تھا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث :4710
2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم میثاق میں تمام انبیاءاور مرسلین نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ جب ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ایمان لے آئیں اور ان کی نصرت کریں قرآن مجید میں ہے:(آل عمران 81.82)
ترجمہ : اور اے رسول ! ےادکےجئ جب اللہ نے تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں پھرتمہارے پاس وہ عظیم رسول آجائیں جو اس چیز کی تصدیق کرنے والے ہوں جو تمہارے پاس ہے توتم ان چیزوں پر ضروربہ ضرور ایمان لانا اور ضروربہ ضرور، ان کی مددکرنا، فرمایا گیا تم نے اقرارکرلیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلےا؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرارکرلےا، اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلیا؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرارکرلیافرمایا پس گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے پاس گواہوں میں سے ہوں پھراس کے بعد جو عہد سے پھراسووہ لوگ نافرمان ہیں۔
امام ابوجعفرمحمد بن جرےرطبری متوفی 310ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
ابوایوب بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ عزوجل نے حضرت آدم کے بعد جس نبی کو بھیجا اس سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عہد لیا کہ اگرآپ کو اس نبی کی حیات میں مبعوث کیا گیا تووہ ضرورآپ پر ایمان لائے اورآپ کی مدد کرے اور اپنی امت سے بھی آپ کی اطاعت کا عہدلے۔
(جامع البیان رقم الحدیث5790 )
سدی بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے یہ عہدلیا کہ وہ سیدنا محمد ﷺ پر ضرورایمان لائے گا اور آپ کی ضرورمدد کرے گا اگرآپ اس کی حیات میں مبعوث ہوئے اور وہ اپنی امت زندہ ہوئی تووہ ضرور آپ پر ایمان لائے گی اور ضرورآپ کی مدد کرے گی۔ (الدرالمشورج۲ص ۲۵۳(
امام الحسین بن مسعود الفراالبغوی المتوفی 516ھ لکھتے ہیں۔
اللہ عزوجل نے یہ ارادہ کیا کہ تمام نبیوں اور ان کی امتوں سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عہد لے اور صرف انبیاءکے ذکرپراکتفا کرلیا جیسا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جس نبی کو بھی بھےجا اس سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں عہد لیا اور ان سے ان کی امتوں کے متعلق بھی عہد لیا کہ اگران کی زندگی میں آپ کو مبعوث کیا گیا تووہ ضرور آپ پرایمان لائیں گے اور آپ کی نصرت کریں گے جب حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کونکالا گیا ان میں انبیاءعلیہم السلام بھی چراغوں کی طرح تھے اس وقت اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لیا۔
(معالم التنزیل ص اص 250
حافظ عمربن اسماعیل بن کثیرومشقی متوفی 774ھ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں۔
حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن عباس نے کہا اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھیجا اس سے یہ عہد لیا کہ اگراس کی حیات میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوبھیج دیا تووہ ان کی ضروراطاعت کرے گا اور ضروران کی نصرت کرے گا اور اس کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے بھی یہ عہد لے کہ اگران کی زندگی میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تووہ سب ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے نیز اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ عہد بھی لیا کہ بعض نبی دوسرے نبیوں کی تصدیق کریں گے اور یہ عہد سابق کے منافی نہیں ہے۔
امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے بنوقریظہ کے ایک یہودی سے کہا ہے تواس نے میرے لئے تورات کی آیات لکھ کردی ہیں کیا میں وہ آیات آپ کو دکھاوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیرہوگیا۔ عبداللہ بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے کہا کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیرہوگیا۔ عبداللہ بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرسے کہا کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کس قدرمتغیرہوگیا ہے پھرحضرت عمرنے کہا میں اللہ کو رب مان کر راضی ہوں اور اسلام کو دین مان کر اور سیدنا محمد ﷺ کو رسول مان کر! پھررسول اللہ ﷺ کے چہرے سے غصہ کی کیفیت دورہوگئی اور آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگرحضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس ہوں اور پھرتم مجھے چھوڑکران کی پیروی کرو توتم گمراہ ہوجاوگے ( مسند احمدج ۳ ص ۸۳۳ اور امام ابوےعلیٰ اپنی سند کے ساتھ حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: اہل کتاب سے کسی چیز کا سوال نہ کرو وہ ہرگز تمہیں ہدایت نہیں دیں گے وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں تم ان سے کوئی بات سن کریا کسی باطل کی تصدیق کروگے یا کسی حق بات کی تکذیب کرو گے بے شک اللہ عزوجل کی قسم اگرتمہارے دور میں حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تومیری پیروی کرنے کے سوا ان کے لئے اور کوئی کام جائز نہ ہوتا، پس قیامت تک کے دائمی رسول سےدنا محمدخاتم الانبیاءصلٰوات اللہ وسلامہ علیہ ہیں اور آپ جس ٬زمانہ میں بھی ہوتے توآپ ہی امام اعظم ہوتے اور آپ ہی واجب الاطاعت ہوتے اور تمام انبیاءپر مقدم ہوتے اور میدان حشرمیں بھی آپ ہی اللہ تعالیٰ کے حضورسب کی شفاعت فرمائیں گے اور یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کسی کے لائق نہیں ہے۔
(تفسیرابن کثیرج اص۶۲۴ مطبوعہ دارالفکربیروت 1419)
اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا شب معراج مسجد اقصیٰ سے ہوتے ہوئے آسمانوں پر جانا اس لئے تھا کہ اپنے اپنے زمانوں میں انبیاءسابقین علیہم السلام نے آپ پر ایمان لائے اور آپ کی نصرت کرنے کا جو عہد کیا تھا وہ عہد پورا ہوجائے۔
3۔ مسجد اقصیٰ سے ہوکر آسمانوں کی طرف جانے کی تیسری حکمت یہ ہے کہ آپ کا مسجد اقصیٰ جانا اور نبیوں کی امامت فرمانامعراج کی تصدیق کا اور خصوصاً بےداری میں اور جسم کے ساتھ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن گیا۔
حافظ ابن کثیردمشقی لکھتے ہیں۔
محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علےہ وسلم نے حضرت وحیہ بن خلیفہ کو قیصرروم کے پاس بھیجا پھران کے وہاں جانے اور قیصرروم کے سوالات کے جوابات دینے کا ذکرکیا پھر ان کے وہاں جانے اور قیصرروم کے سوالات کے جوابات دینے کا ذکرکیا پھربیان کیا کہ شام کے تاجروں کو بلایا گیا توابوسفیان بن صخربن حرب اور اس کے ساتھیوں کے آنے کا ذکرکیا پھرہرقل نے ابوسفیان سے سوالات کئے اور ابوسفیان نے جوابات دئیے جن کا تفصیلی ذکرصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے ابوسفیان نے پوری کوشش کی کہ قیصرروم کی نگاہوں میں نبی کرےمﷺ کا مرتبہ کم کردے، ان ہی باتوں کے دوران اس کو واقعہ معراج یاد آیا۔ اس نے قیصرروم سے کہا اے بادشاہ! کیا میں تم کو ایسی بات نہ سناﺅں جس سے اس شخص کا جھوٹ تم پر واضح ہو جائے، اس نے پوچھا وہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات ہماری زمین ارضِ حرم سے نکل کر تمہاری اس مسجد بےت المقدس میں پہنچے اور اسی رات کو صبح سے پہلے ہمارے پاس حرم میں واپس پہنچ گئے۔ بیت المقدس کا بڑا عابد جو بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہوا تھا وہ کہنے لگا مجھے اس رات کا علم ہے۔ قیصر نے اس کی طرف مڑکردیکھا اور پوچھا تمہیں اس رات کا کیسے علم ہے ؟ اس نے کہا میں ہررات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بندکردیا کرتا تھا اس رات کو میں نے ایک دروازہ کے علاوہ سارے دروازے بندکردئیے وہ دروازہ بند نہیں ہوا۔ اس وقت وہاں جتنے کا رند دستےاب تھے سب نے پوری کوشش کی مگروہ دروازہ بند نہےں ہوا۔ ہم اس دروازہ کو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہےں سکے یوں لگتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑکے ساتھ زورآزمائی کررہے ہوں۔ ہم نے کہا صبح کو بڑھیوں کو بلا کر دکھائیں گے کہ اس میں کیا نقص ہوگیا ہے اور اس رات کو دروازہ یونہی کھلا چھوڑ دیا۔ صبح کو ہم نے دیکھا کہ مسجد کے ایک گوشہ میں جو پتھر تھا اس میں سوراخ تھا اور پتھرمیں سواریاں کے باندھنے کے نشانات تھے۔ میں نے اپنے اصحاب سے کہا گزشتہ رات کو وہ دروازہ اس لئے بند نہےں ہو سکا تھا کہ اس دروازہ سے ایک نبی کو آنا تھا اور اس رات ہماری اس مسجد میں نبیوں نے نماز پڑھی ہے (تفسیرابن کیثرج ۳ ص ۲۸)
اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علےہ وسلم مسجد اقصیٰ سے گزرکر جو آسمانوں کی طرف گئے اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ آپ کا وہاں جانا واقعہ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن جائے۔
4چوتھی حکمت یہ تھی کہ تمام انبیاءعلہیم السلام اپنی اپنی قبروں میں مدفون ہیں اور وہ سب اس رات کو مسجد اقدس میں جمع ہوئے۔ تمام نبیوں نے خطبات پڑھے اوراللہ تعالیٰ نے ان کو جو نعمتیں دی ہیں ان کا بےان کیا اور سب کے آخرمیں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا اور آپ نے سب نبیوں کو نماز پڑھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءعلیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں اور ایک وقت میں متعدد جگہ بھی تشریف لے جاتے ہیں اس وقت سب نبی اپنی اپنی قبروں میں بھی تھے اور مسجد اقصیٰ میں بھی تھے۔
مولانا اشرف علی تھانوی متوفی 1364ھ لکھتے ہیں:
حضرت آدم علیہ السلام جمیع انبیاءمیں اس کے قبل بیت المقدس میں بھی مل چکے ہیں اور اسی طرح وہ اپنی قبر میں بھی موجود ہیں اور اسی طرح بقیہ آسمانوں میں جو انبیاءعلہیم السلام کو دیکھا سب جگہ یہی سوال ہوتا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ قبر میں تواصل جسد سے تشریف رکھتے ہیں اور دوسرے مقامات پر ان کی روح کا تمثل ہوا ہے یعنی عنصری جسد سے جس کو صوفیا جسد مثالی کہتے ہیں روح کا تعلق ہوگیا اوراس جسد میں تعدد بھی اور ایک وقت میں روح کا سب کے ساتھ تعلق بھی ممکن ہے لیکن ان کے اختیار سے نہیں بلکہ محض یہ قدرت ومشیت حق۔ نشرالطیب ص 64-65
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض نشانیاں دکھانا
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کے اردگرد ہم نے برکتیں دی ہیں تاکہ ہم اس (عبد مکرم) کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں۔ مسجد اقصٰی کے اردگرد جوبرکتیں ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں کہ مسجد اقصٰی تمام انبیاءسابقین کی عبادت گاہ ہے اور ان کا قبلہ ہے۔ اس میں بکثرت دریا اور درخت ہیں اور یہ ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف قصداً رخت سفرباندھا جاتا ہے اور یہ ان چار مقامات میں سے ہے جہاں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔ امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ دجال روئے زمین میں گھومے گا سوا چار مساجد کے۔ مسجد مکہ، مسجد مدےنہ، مسجد اقصٰی اور مسجد طور، اور اس میں ایک نماز پڑھنے کا اجر پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے (سنن ابن ماجہ ) اورامام ابوداود اور امام ابن ماجہ نے رسول اللہﷺ کی باندی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یا نبی اللہ! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتائیں آپ نے فرمایا اس جگہ حشر نشر ہوگا اس جگہ آ کرنماز پڑھو کیونکہ اس جگہ ایک نماز پڑھنے کا اجرایک ہزارنمازوں کے برابرہے۔ نیز امام احمد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یارسول اللہ ہم میں سے کوئی بیت المقدس حاضرہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا جب تم میں کوئی وہاں حاضرنہ ہو سکے تو وہاں زیتون کا تیل بھیج دے جس سے وہاں چراغ جلایا جائے۔ اس مسجد میں چراغ جلانے کا اجر بھی وہاں نماز پڑھنے کے برابر ہے اور امام ابوداود نے روایت کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ وہ دوسری مسجد ہے جس کوروئے زمین پر بنایا گیا ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ! زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی؟آپ نے فرمایا مسجد الحرام، میں نے کہا کہا پھرکون سی؟ آپ نے فرمایا المسجد الاقصیٰ۔ میں نے پوچھا ان کے درمیان کتنی مدت ہے آپ نے فرمایا چالیس سال پھر تمہیں جہاں بھی موقع ملے تم نماز پڑھ لو۔ حضرت ابراہیم ؑ کے کعبہ کو تعمیرکرنے کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کو تعمیرکیا اور پھر حضرت سلیمانؑ نے مسجد اقصیٰ کو تعمیر کیا اور پھرحضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی۔
 امام بخاری مالک بن صعصہ ؓ سے روایت کرتے ہیں:
پھر حضرت جبرائیلؑ مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو حضرات جبرائیلؑ نے آسمان کا دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون ہے؟ انہوں نے کہا جبرائیل ہے، پھر آسمان سے فرشتوں نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد پوچھا گیا وہ بلائے ہیں؟ جبرائیلؑ نے جواب دیا کہ ہاں! کہا گیا کہ انہیں خوش آمدید۔ ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو آدمؑ ملے، جبرائیلؑ نے کہا یہ آپ کے باپ آدمؑ ویڈ، آپ انہیں سلام کیجئے! میں نے سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو صالح بیٹے اور صالح نبی کو، پھر جبرائیلؑ (میرے ہمراہ) اوپر چڑھے، یہاں تک کہ دوسرے آسمان پر پہنچے، اور انہوں نے کہا اس کا دروازہ کھلوایا، پوچھا کون؟ انہوں نے کہا جبرائیلؑ! دریافت کیا گیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد پھر پوچھا کہ وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیلؑ نے کہا ہاں، اس دوسرے آسمان کے دربان نے کہا خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ یہ کہہ کر دروازہ کھول دیا، پھر جب میں وہاں پہنچا تو وہاں یحیٰی اور عیسیٰ علیھما السلام ملے اور وہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبرائیلؑ نے کہا یہ یحیٰی اور عیسی علیہما السلام ہیں آپ انہیں سلام کیجئے، میں نے انہیں سلام کیا، ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو اخ صالح کو اور نبی صالح کو۔ پھر جبرائیلؑ مجھے تیسرے تیسرے آسمان پر لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبرائیلؑ! جبرائیلؑ سے دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا محمد پھر دریافت کیا گیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیلؑ نے کہا ہاں! اس کے جواب میں کہا گیا انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت ہی اچھا اور نہایت مبارک ہے اور دروازہ کھول دیا گیا، پھر جب میں وہاں پہنچا تو یوسفؑ ملے، جبرائیلؑ نے کہا یہ یوسف ہیں انہیں سلام کیجئے، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر انہوں نے کہا خوش آمدید ہ اخ صالح اور نبی صالح کو، اس کے بعد جبرائیلؑ مجھے چوتھے آسمان پر لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبرائیلؑ! پھر دریافت کیا گیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟ جبرائیلؑ نے کہا محمد پھر پوچھا گیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں چوتھے آسمان کے دربان نے انہیں کہا خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت ہی اچھا اور مبارک ہے اور دروازہ کھول دیا گیا، پھر جب میں وہاں پہنچا تو ادریسؑ ملے۔ جبرائیلؑ نے کہا یہ ادریس ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اس کے بعد کہا خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو۔ پھر جبرائیلؑ مجھے لیکر اوپر چڑھے، یہاں تک کہ پانچویں آسمان تک پہنچے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبرائیلؑ! دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد پوچھا گیا کہ وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں، پانچویں آسمان کے دربان نے کہا یہ ہارون ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر کہا خوش آمدید ہو اخ صالح کو اور نبی صالح کے لئے۔ پھر جبرائیلؑ مجھے اوپر چڑھا لے گئے، یہاں تک کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے، جبرائیلؑ نے اس کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبرائیلؑ، دریافت کیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد پوچھا گیا کہ وہ بلائے گئے ہیں، انہوں نے کہا ہاں، اس فرشتے نے انہیں خوش آمدید کہا، ان کا آنا بہت ہی اچھا اور مبارک ہے۔ میں وہاں پہنچا تو موسیٰؑ ملے، جبرائیلؑ نے کہا یہ موسیٰ ہیں انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو اخ صالح کو اور نبی صالح کو۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ روئے۔ ان سے پوچھا گیا آپ روتے کیوں ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں اس لئے روتا ہوں کہ میرے بعد ایک مقدس لڑکا مبعوث کیا گیا جس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر جبرائیلؑ مجھے ساتویں آسمان پر چڑھا لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا گیا۔ پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبرائیلؑ! پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد پوچا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں، تو اس فرشتے نے کہا خوش آمدید ہو ان کا آنا بہت اچھا اور نہایت مبارک ہے، پھر جب میں وہاں پہنچا تو ابراہیمؑ ملے جبرائیلؑ نے کہا یہ آپ کے باپ ابراہیم ہیں انہیں سلام کیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو ابن صالح کو اور نبی صالح کو۔
پھر میں سدرة المنتہیٰ تک چڑھایا گیا تو اس درخت سدرہ کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے۔ جبرائیلؑ نے کہا یہ سدرة المنتہیٰ ہے اور وہاں چار نہریں تھیں۔ دو پوشیدہ اور دو ظاہر ، میں نے پوچھا اے جبرائیلؑ یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا ان میں جو پوشید ہیں وہ تو جنت کی نہریں ہیں اور جو ظاہر ہیں وہ نیل و فرات ہیں۔ پھر بیت المعمور میرے سامنے ظاہر کیا گیا، اس کے مجھے ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ اور ایک برتن شہد کا دیا گیا۔ میں نے دودھ کولے لیا، جبرائیلؑ نے کہا یہی فطرت اور (دین اسلام) ہے ۔ آپ اور آپ کی امت اس پر قائم رہیں گے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث: 3887)
امام بخاری روایت کرتے ہیں:
نبی اکرم ساتویں سے اوپر سدرة المنتہیٰ پر پہنچے اور جبار رب العزت آپ کے نزدیک ہو گیاپھر اور قریب ہوا حتیٰ کہ وہ آپ سے دو کمانوں کی مقدار برابر ہو گیا یا اس سے بھی نزدیک ہو گیا، پھر اللہ تعالیٰ جو آپ پر وحی نازل کرتا ہے اس نے آپ پر وحی نازل کی اور آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض کر دیں، پھر آپ نیچے اترے حتیٰ کہ حضرت موسیٰؑ تک پہنچے، حضرت موسیٰؑ نے آپ کو روک لیا اور کہا یا محمد! آپ کے رب نے آپ کو کیا حکم دیا؟ آپ نے فرمایا اس نے مجھ کو ہر روز (دن اور رات میں) پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا، حضرت موسیٰؑ نے فرمایا آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، آپ واپس جائیے تاکہ آپ کا رب آپ کی امت سے تخفیف کر دے، پھر نبی حضرت جبرائیلؑ کی طرف متوجہ ہوئے، گویا اس معاملہ میں ان سے مشورہ لیتے تھے، حضرت جبرائیلؑ نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ پسند کریں تو! آپ پھر حضرت جبار میں پہنچے اور آپ نے اسی پہلے مقام پر پہنچ کر عرض کیا: اے ہمارے اب ہمارے لئے تخفیف کر دے کیونکہ میری امت اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، تب اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں، پھر آپ حضرت موسیٰؑ کے پاس پہنچے حضرت موسیٰؑ نے آپ کو پھر روک لیا، پھر حضرت آپ کو بار بار آپ کے رب کے پاس بھیجتے رہے حتیٰ کہ پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰؑ نے آپ کو پانچ نمازوں پر پھر روک لیا اور کہا یا محمد! خدا کی قسم میں اپنی قوم بنو اسرائیل کا اس سے کم نمازوں کا تجربہ کر چکا ہوں، وہ پانچ سے کم نمازیں بھی نہ پڑھ سکے اور ان کو ترک کر دیا۔ آپ کی امت کے اجسام، ابدان، قلوب، آنکھیں اور کان تو ان سے زیادہ کمزور ہیں، آپ پھر جائیے اور اپنے رب سے تخفیف کرائیے، نبی ہر بار حضرت جبرائیلؑ کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ وہ آپ کو مشورہ دیں اور حضرت جبرائیلؑ نے اس کو ناپسند نہیں کیا اور آپ پانچویں بار پھر گئے اور عرض کیا اے میرے رب! میری امت کے جسم، دل، کان اور بدن کمزور ہیں آپ ہم سے تخفیف کر دیجئے۔ جبار نے فرمایا: محمد! آپ نے فرمایا لبیک و سعدیک، اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے لوح محفوظ میں جس طرح لکھ دیا ہے میرے اس قول میں تبدیلی نہیں ہوتی، ہر نیکی کا دس گنا اجر ہے، پس یہ لوح محفوظ میں پچاس نمازیں ہیں اور آپ پر پانچ نمازیں فرض ہیں، آپ حضرت موسیٰؑ کی طرف لوٹے حضرت موسیٰؑ نے پوچھا آپ نے کیا کیا، آپ نے فرمایا ہمارے رب نے تخفیف کر دی ہے اور ہمارے لئے ہر نیکی کا اجر دس گنا کر دیا۔ حضرت موسیٰؑ نے فرمایا خدا کی قسم! میں بنو اسرائیل کا اس سے کم نمازوں میں تجربہ کر چکا ہوں، انہوں نے اس سے کم نمازوں کو بھی ترک کر دیا تھا، آپ پھر اپنے رب کے پاس جائیے اور ان نمازوں میں بھی کمی کرائیے، آپ نے فرمایا اے موسیٰؑ! بہ خدا مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے! پھر اسی رات آپ واپس آ کر مسجد حرم میں سو گئے اور صبح بیدار ہوئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث: 7517)