اسلام اور ازدواجی زندگی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 05, 2017 | 10:47 صبح

عورتوں کے بھی ایسے ہی حقوق ہیں، جیسے کہ ان پر مردوں کے حقوق ہیں۔ اسلام نے شوہر کو اپنی رفیقہءحیات پر ظلم و تعدی، ایذارسانی، جسمانی سزا، تذلیل، روحانی اذیت اور گالی گلوچ سے سختی سے روکا ہے اور ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے تحمل اور باہمی عفو و درگزر کی تلقین کی ہے
اسلام کے سوا دیگر مذاہب عالم کا مطالعہ کیا جائے تو یہی تعلیمات ملتی ہیں کہ قرب الہی کے لیے ازدواجی زندگی سے فرار حاصل کیا جائے اور تجرد کی زندگی اختیار کی جائے۔ اگر کوئی شخص گناہوں سے محفوظ رہنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے

کہ ازدواجی زندگی سے مکمل کنارہ کشی اور مجرد زندگی بسر کرے۔ تعلیماتِ نصاریٰ نے متعدد بار اس کی تلقین کی اور رہبانیت کا درس دیا ہے۔ اکابرینِ یہود نے یہ بات ذہن نشین کرائی کہ عورت بدی کا مجسم ہے، اگر اس کے ساتھ تعلق قائم کرو گے تو شیطان کے ایک ایسے چنگل میں پھنس جاو¿ گے، جس سے پھر نکلنا تمہارے لیے مشکل ہوجائے گا اور یہی حال دانش مندانِ ہنود اور دیگر مذاہب کا ہے۔ جب کہ اسلام نہ صر ف ازدواجی زندگی کی اجازت دیتا ہے، بل کہ بغیر عذر کے اس سے روگردانی کو گناہ قرار دیتا ہے۔ چناں چہ رسول اکرمؒﷺ کا ارشاد ہے ”نکاح کرنا میری سنت ہے، جو میری سنت سے اعراض کرے گا، اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔“


اسلام میں مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے شادی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور وہ امکانی حد تک کوشش کرتا ہے کہ ہر مرد اور عورت جب بھی بلوغت کی عمر کو پہنچیں تو بغیر کسی تاخیر کے ان کو رشتہءازدواج میں منسلک کردیا جائے۔ اسی وجہ سے اسلام شادی کو مشکل رسم نہیں بناتا، بل کہ بڑی سادہ اور آسان سی تقریب کے ذریعے پورا کردیتا ہے۔ رشتہءازدواج میں منسلک ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ فریقین دو ذمے دار گواہوں کی موجودی میں ایجاب و قبول کرلیں۔ اس طرح دو اجنبی افراد آپس میں میاں بیوی کے مقدس رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ اسلام نے نکاح کو بڑا آسان اور سادہ بنایا ہے، جسے آج ہم نے غیراسلامی رسومات کے تحت مشکل اور منہگا بنادیا ہے۔
حقوق کے معاملے میں اسلام، مساواتِ زن و شو کا حامی ہے لیکن کارہائے عمل دونوں کے مختلف ہیں۔ بعض لوگ مرد اور عورت کے حقوق کی مساوات کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عورت ہر لحاظ سے مرد کے برابر ہے اور ان دونوں کے میدان ہائے عمل بھی ایک ہیں۔ بلاشبہ اسلام نے عورت کو قانونی اور اخلاقی حیثیت سے مرد کے برابر لاکھڑا کیا ہے۔
ارشاد الہی ہے۔ ”مردوں کو عورتوں پر کچھ فوقیت ہے۔“ دینِ اسلام گھر کے انتظامی امور میں مرد کی فوقیت کا حامی ہے تاکہ گھر کے تمام امور احسن طریق سے انجام پاسکیں۔ جس طرح ملک کے دو صدر اور کسی ادارے میں دو سربراہ ممکن نہیں، اس طرح گھرکی چھوٹی سی ریاست میں میاں بیوی کے انتظامی امور کی تقسیم کر دی گئی ہے، کہ مرد سربراہ ہے اور عورت اس کی مشیر اور وزیر۔ طبعی طور پر مرد میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو عورت میں نہیں اور عورت کی جبلّی خصوصیات مرد سے مختلف ہیں۔ دونوں کی جسمانی ساخت اور جبلّتوں کا فرق اس بات کا ثبوت ہے کہ خالق ِ کائنات نے ان دونوں کو مختلف مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہر ایک کا اپنا دائرہ کار ہے۔ جس کے اندر رہ کر انہوں نے اپنے مخصوص فرائض سرانجام دینے ہیں۔ مردوں کی جسمانی قوت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ذمے انتظامی امور اور اہلِ خانہ کی کفالت سپرد کی گئی ہے۔


عورت میں محبت و نرمی کا جذبہ زیادہ ہے۔ اس لیے بچوں کی پرورش و تربیت کی ذمے داری اس پر ڈال دی گئی ہے۔ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے مرد و عورت دو پہیے ہیں، جو مل کر کام کرتے ہیں تو عائلی اور معاشرتی زندگی کی گاڑی درست چلتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ”تمہاری بیویاں تمہارے لیے لباس کی حیثیت رکھتی ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو“
قرآن نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ لباس نہ صرف انسان کے جسمانی عیوب کو چھپا کر پردہ پوشی کرتا ہے، بل کہ اس کے حسن و خوب صورتی میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ گویا اسلام میاں اور بیوی دونوں کو اس بات کی نصیحت اور تلقین کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جسمانی اور اخلاقی کمزوریوں کی پردہ پوشی کریں اور ایک دوسرے کے راز ظاہر نہ کریں کہ یہی اعلی اخلاق کی نشانی ہے۔
قبل از اسلام عورت کی حالت بہت ابتر تھی، اسے ذاتی ملکیت سمجھا جاتا تھا اور اس پر ہر قسم کا ظلم روا تھا، اس کی نہ کوئی قانونی حیثیت تھی نہ ذاتی۔ معاشی اعتبار سے عورت، مرد کے مقابلے میں بے بس تھی۔ وہ ایک قابلِ فروخت شے تھی۔ وہ وراثت کے حق سے محروم تھی۔ اسلام نے عورت کو بڑا مقام دیا ہے۔ اس کو ہر رشتے کے لحاظ سے قابلِ احترام ٹھہرایا ہے۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے، بیوی ہے تو وہ ایمان کی محافظہ اور راحت و سکون کا سبب ہے، بیٹی ہے تو اس کی پرورش جنت کا ذریعہ ہے اور بہ طور بہن وہ قابل شفقت ہے۔

رسول اکرمؒﷺ ”نکاح نصف ایمان ہے“ فرما کر اس غلط نظریے کہ عورت مرد کی روحانی ترقی میں رکاوٹ ہے، کی بھی تردید کردی۔ اسی طرح اسلام نے مرد و عورت کی مساوی حیثیت کو تسلیم کیا۔ علاوہ ازیں دین اسلام نے دختر کشی کی ممانعت کی بل کہ لڑکیوں کی پرورش اور تربیت کی بڑی فضیلت بیان کی۔ اس کا حق ملکیت تسلیم کیا۔ شریعت نے زوجین کے چند حقوق مقرر کیے ہیں اور ان کے فرایض بھی بیان کیے ہیں۔ تاکہ گھریلو زندگی خوش و خرم گزرے اور تمام جھگڑوں سے پاک اور اولاد کی تربیت خوش گوار ماحول میں ہو۔ اسلام تاکید کرتا ہے کہ ہر فرد اپنا فرض ادا کرے تو اسے حقوق خود بہ خود حاصل ہوجائیں گے۔ کیوں کہ ایک کے فرایض دوسرے کے حقوق ہوتے ہیں۔ اسلام تاکید کرتا ہے کہ شوہر اور بیوی امکانی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلو ک سے پیش آئیں۔ حدیث پاک میں ہے ”جب بیوی اپنے خاوند کو دیکھ کر مسکراتی ہے اور خاوند اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے تو االلہ تعالیٰ ان دونوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔“ حضرت عائشہءسے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو مسکراتے ہوئے داخل ہوتے تھے۔
شریعت نے عورت کی تکریم و عزت کے لیے حقوقِ زوجیت کے عوض مہر کی رقم تجویز فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”اپنی بیویوں کا حقِ مہر ادا کرنا تم پر فرض ہے۔“ بیوی کی جائز ضروریات کا پورا کرنا بھی خاوند کا فرض ہے۔ اس میں خورونوش، لباس اور رہایش کی ضروریات شامل ہیں۔ اس میں خاوند کی حیثیت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
اسلام نے خاوند کو اپنی رفیقہ حیات پر ظلم و تعدی سے منع کیا اور ظلم کی ہر شکل سے روکا ہے۔ اس میں ایذارسانی، جسمانی سزا، تذلیل کرنا، روحانی اذیت یا گالی گلوچ وغیرہ سب شامل ہیں، بل کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے تحمل، درگزر اور باہمی عفو پر زور دیا ہے۔ اگرچہ اسلام نے مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت دی ہے لیکن عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ۔ قرآن کا فرمان ہے ”پس اگر تم کو اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔“
ناموافق صورت حال میں اسلام نے جس طرح مرد کو طلاق کا حق دیا ہے اسی طرح عورت کو بھی خلع کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح اسلام نے بیوی پر بھی کچھ ذمے داریاں ڈالی ہیں۔ بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے خاوند کی اطاعت شعار اور تابع فرمان ہو۔ خاوند جو جائز بات کہے اس کی تعمیل کرنا اپنا دینی فرض سمجھے۔ حدیث نبویﷺ میں بھی اطاعت شعاری کی بڑی تائید آئی ہے۔ ارشاد ہے ”اگر بیوی کی موت ایسی حالت میں واقع ہو کہ اس کا خاوند اس سے راضی اور خوش ہو تو وہ عورت یقینی طور پر جنّتی ہے۔“ (ترمذی)
مسلمان عورت کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ خاوند کی عدم موجودی میں اس کی عزت و مال کی حفاظت کرے۔ خاوند بیوی کی معاشی ضروریات کا کفیل اور اس کی عزت و عظمت کا محافظ ہے۔ لہٰذا بیوی کو تشکر اور احسان مندی کا رویہ اپنانا چاہیے۔ بیوی کا ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ شوہر کے رشتے داروں سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ مسلمان بیوی کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اولاد کی تربیت صحیح طریقے سے کرے تاکہ یہ بچے سچے مسلمان اور اچھے شہری بن سکیں۔ اولاد کی تربیت میں ماں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ میاں بیوی اگر دونوں اپنے فرایض خوش اسلوبی سے ادا کریں تو انسانی زندگی کامیابی سے رواں دواں رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرایض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔۔۔ سید شاہ عبدالعزیز بخاری۔ بشکریہ ایکسپریس