ماروی میمن کا سیاہ بل : حد کر ڈالی ، بڑے بڑے دانشوروں کو شرما دیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 05, 2017 | 08:01 صبح

لاہور( شیر سلطان ملک)  پاکستان میں تعلیم کے شعبہ میں ایک بڑا نام پروفیسر محمد سلیم ہاشمی کا ہے وہ  ماروی میمن کے خواتین  کے حوالے سے ایک بل پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔یہاں

پر کچھ ایسے جملے بھی ملتے ہیں جن کا مطلب اور مفہوم شاید ان کو لکھنے والے کے ذہن پر تو اترا ہو مگر ہمارا ذہن نارسا ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس جملے پر غور فرمائیں۔
That all mother tongues belong to all of Pakistan and not ju

st to the restricted areas where they are spoken.
اب پہلی بات تو یہ کہ یہ جملہ انگریزی کی غلطیوں سے بھر پور ہے جو ان کے آقاؤں کی اور ان کی غلامی کی زبان ہے، پھر یہ کہ یہ جو آفاقی درس دیا جا رہا ہے اس کا آخر مقصد ہی کیا ہے، اس پیغام کو دینے کی ضرورت صرف اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں، جو قائد اعظم کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھنا چاہتے ہیں، جو اس ملک کو بانی پاکستان کے افکار کی روشنی میں چلانا چاہتے ہیں، ان کو یہ بتایا جائے کہ تم مادری زبانوں کا استحصال کر رہے ہو، اور یہ کہ تم لوگ اردو کو ناجائز طور پر بالا دستی دینا چاہتے ہو۔

جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو صرف اور محض ایک مادری زبان ہے اور کچھ نہیں۔ یا یہ کہ اگر پاکستان میں اردو کا نفاذ ہو جاتا ہے تو ان لوگوں کو ان مقدس ایوانوں میں یا سرکاری ملازمتوں پر یا کاروبار زندگی میں وہ بالا دستی حاصل نہیں رہے گی جہاں پر یہ پچھلے 70 سال سے قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔پھر یہ کہ یہ اس بات کی تصدیق سرکاری طور پر کر رہے ہیں کہ پاکستان میں کوئی پاکستانی قوم نہیں ہے، اس میں بلوچی قوم ہے، سندھی قوم ہے، پنجابی قوم ہے پشتون قوم ہے، سرائیکی قوم ہے، علی ہذاالقیاس۔ اگر  کوئی قوم اس ملک میں نہیں ہے  تو وہ پاکستانی قوم ہے ۔ بار بار یہ پیپلز کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ۔ جو شاید یہی بات باور کروانے کے لیے ہے کہ یہ ایک کثیر قومی ملک ہے اور اس میں کسی ایک قوم کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی جائے۔ کیا یہ ایسی معمولی جسارت ہے جس کو چند افراد کا ذہنی خلفشار سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے، جب کہ ان افراد میں محترم و مکرم داماد عالی مقام کا نام بھی شامل ہو۔
اب میرا دل کرتا ہے کہ محترم آنٹی اور انکلوں کے اس گروہ سے پوچھوں کہ کیا آپ لوگوں نے دنیا وغیرہ بھی دیکھی ہے یا نہیں؟ دنیا کے کسی اور ملک میں بھی اس طرح کا تماشا لگایا گیا ہے یا نہیں؟ باالخصوص جہاں تک مادری زبانوں میں تعلیم دینے کی بات ہے دنیا کے کتنے ممالک میں ایسا تماشا لگا ہوا ہے، چین کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ ارب ہے وہاں کم از کم 500 زبانیں تو بولی جاتی ہوں گی، کسی وفد کو چین بھیج دیں اور پتا چلائیں کہ کیا ایسا تماشا وہاں بھی لگا ہوا ہے، روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے وہاں بھی کوئی پانچ سات سو زبانیں تو بولی جاتی ہوں گی، ایک وفد وہاں بھی بھیجیں تو پتا چلائے کہ وہاں کتنی زبانوں کا میلا لگا ہوا ہے۔
کس قدر حیران کن بات ہے جب انگریزی کی بات آتی ہے تو یہ ایک بین الاقوامی زبان بن جاتی ہے اور اس کو ہم پر یہ کہہ کر مسلط کر دیا جاتا ہے کہ ساری سائنس اور ساری ٹیکنالوجی کا علم اس میں ہے اور یہ کہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اردو کے آگے بند باندھ دیا جاتا ہے۔ اور جب اردو کی بات کی جائے تو فوری طور پر اس کے مقابلے میں مادری زبانوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے یہ تمام قوم پرست جب قیام پاکستان کی بات ہوتی تھی تو پاکستان کے مقابلے میں برصغیر کے ایک ملک ہونے پر زور دیتے تھے، مگر جب سے پاکستان بنا ہے ان کو اس میں چار، پانچ یا زیادہ ملک اور قومیں نظر آ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا ہے یا نہیں۔ کیا ن لیگی حکومت اس سوال کا جواب دے گی؟
آخری بات یہ کہ آئین کے ساتھ یہ کھیل تماشے بند کیے جائیں ایسے عناصر کو لگام دی جائے اور 1973 کے آئین کی دفعہ 251 پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے وطن پاک میں فوری طور پر ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو نافذ کی جائے، اس ملک سے انگریزی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کلی طور پر بے دخل کیا جائے۔ یہی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے اور اس ملک میں علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا ذریعہ بھی اور یہی بات اس ملک کی سلامتی، آزادی اور بقا کی ضامن ہے۔