آج کی سب سے بڑی خبر: آخر چین مولانا مسعود اظہر کو تحفظ کیوں دیتا ہے؟جان کر آپ بھی کہیں گے پاک چین دوستی زندہ باد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 03, 2017 | 06:03 صبح

لاہور شیر سلطان ملک)  ایک انٹرنیشنل نیوز ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے  پاک چین تعلقات اور پاکستانی شہری  مسعود اظہر مولانا  کو چین کی جانب سے ہر ممکن تحفظ دینے کے معاملے پر جرمن شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر زیگفریڈ او وولف کا انٹرویو کیا ۔ اس  بات چیت میں بڑے اہم نکات سامنے آئے ، یہ گفتگو من و عن پیش خدمت ہے۔

 ڈی ڈبلیو نے ان سے پوچھا کہ چین نے ابھی حال ہی اقوام متحدہ کی طرف سے مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کر دینے سے متعلق ایک بھارتی قرارداد کو ویٹو کر دیا جبکہ گزشتہ اپریل میں بھی بیجنگ نے ایسی ہی ایک قرارداد کا راستہ روک دیا تھا۔ چین مسعود اظہر کو آخر تحفظ کیوں دے رہا ہے؟

زیگفریڈ او وولف: اس شدت پسند گروپ کے حوالے سے چین کی پاکستان کے لیے سفارتی تائید کثیر الجہتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں اقوام متحدہ میں بیجنگ کی جانب سے اس قرارداد کے ویٹو کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ مسعود اظہر کو بالواسطہ تحفظ دینا چین کی جانب سے پاکستان کے لیے سفارتی تعاون کی محض ایک کڑی ہے کیونکہ چین پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دیے جانے سے بچانا چاہتا ہے۔ ممکنہ پابندیاں اسلام آباد پر صرف شدید سیاسی اور اقتصادی دباؤ کا باعث ہی نہیں بنیں گی بلکہ اس سے بیجنگ کی ساکھ بھی متاثر ہو گی کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان چین کا بہت قریبی اتحادی ہے۔

اسی وجہ سے چینی حکام بین الاقوامی سطح پر بھارت کے ہر اس اقدام کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست  ملک ثابت کرنا ہو، چاہے یہ کوششیں برکس سمٹ کے موقع پر ہوں یا ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کی سطح پر۔

ساتھ ہی چین اسلام آباد اور ماسکو کے باہمی روابط بھی بہتر بنوانا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ چین عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کو ختم کرنے کی کوششوں میں بھی لگا ہوا ہے۔ اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر بھارت مخالف مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے تو وہ پاکستانی ریاست کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو چین کو بھی اس کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں کیونکہ بیجنگ حکومت پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے اور بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کر چکی ہے، مثال کے طور پر پاک چین اقتصادی راہ داری یا سی پیک منصوبہ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ القاعدہ، ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ جیسے دہشت گرد گروپ چینی صوبے سنکیانگ میں مسلم مخالف پالیسیوں پر بیجنگ حکومت سے شدید نالاں ہیں اور میرے خیال میں چین بھی کوئی نیا تصادم نہیں چاہتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اور بھارت کے مابین رقابت بھی پاکستان میں موجود اس دہشت گرد کو تحفظ دیے جانے کی ایک وجہ ہے۔

ڈی ڈبلیو: بھارت آخر کیوں چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے؟

زیگفریڈ او وولف: بھارتی پالیسی یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست ملک قرار دے دے۔ نئی دہلی چاہتا ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان پر پابندیاں عائد کریں۔ اگر بین الاقوامی برادری پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے دیتی ہے، تو بھارت کے لیے پاکستانی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف ممکنہ عسکری کارروائی کرنے حتیٰ کہ کسی سرحد پار آپریشن کا اصولی جواز بھی پیدا ہو جائے گا۔

ڈی ڈبلیو: چین کو بھی سنکیانک صوبے میں مسلم عسکریت پسندی کا سامنا ہے۔ تو بھارت اور چین دہشت گردی کے خلاف ایک ہی موقف کے حامی کیوں نہیں ہیں؟

زیگفریڈ او وولف: چین نے انسداد دہشت گردی کی اپنی کوششوں سے امریکا اور بھارت کو بظاہر خارج کر دیا ہے۔ چینی حکام تاریخی طور پر نئی دہلی کو ایک جغرافیائی حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بھارت اور امریکا کے قریبی تعلقات کو بھی بیجنگ ایک خطرہ سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے چین بھارت کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہتا۔ گرشتہ برس چین اور روس کے باہمی روابط مزید گہرے ہوئے، جن سے لگتا ہے کہ بیجنگ ایشیا میں کوئی نیا دفاعی اتحاد یا بلاک بنانا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا چینی بھارتی سکیورٹی تعاون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو: نئی دہلی جیش محمد اور مسعود اظہر کو بھارت میں کیے گئے کئی دہشت گردانہ حملوں کے منصوبہ ساز قرار دیتا ہے۔ چند ماہرین کے مطابق پاکستان کی طرف سے بھارت اور افغانستان میں سرگرم جہادی عناصر کی حمایت کی جاتی ہے۔ کیا چین کی اس تائید سے پاکستان اس سلسلے میں اپنے موقف کو اور بھی حق بجانب سمجھ سکتا ہے؟

زیگفریڈ او وولف:چین بالواسطہ طور پر پاکستان کی جانب سے سرحد پار کی جانے والی ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ساتھ ہی بیجنگ اُن دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی پالیسیوں کی حمایت بھی کرتا ہے، جو پاکستانی ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر وہ شدت پسند گروپ بھی، جو سی پیک منصوبے کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ یہ  مشکل ہے کہ چین بھارت اور افغانستان میں سرگرم شدت پسندوں کی حمایت کرنے کی پاکستان پالیسی میں کوئی دخل اندازی کرے۔ اگر ایسی تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی یا ان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا گیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود پاکستان کے خلاف کارروائیوں پر اتر آئیں۔ اس تناظر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ابھی حال ہی میں روس، چین اور پاکستان کا ایک اجلاس ہوا، جس میں افغانستان میں استحکام اور قیام امن پر بحث کی گئی اور اس میں پاکستان نواز طالبان گروپ اور حقانی گروپ کے بجائے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو افغانستان کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔