مظلوم

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 19, 2022 | 18:36 شام

مہر ماہ مظلوم کے لغوی معنیٰ ہیں " ستایا ہوا " ستم رسیدہ" جس سے ناانصافی کی گئی ہو۔ اب دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ آج کل مظلوم ہے کون ؟۔۔ ہر دوسرا بندہ اپنا شُمار مظلوم ترین ہستی میں کیئے بیٹھا ہے ۔ شوہر، بیوی پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہے اور خود مظلومیت کا رونا روتا ہے کہ سارا دن گدھوں کی طرح کام کرنے کے بعد گھر آؤ تو گھر میں بیوی کی چخ چخ سے دماغ خراب ہوجاتا ہے ۔ بیوی شک کرتی ہے۔ بیوی نگرانی کرتی ہے ۔ بیوی پیسے پیسے کا حساب مانگتی ہے ، گویا شوہر سے بڑھ کر کوئی مظلوم نہیں ۔ اسی
طرح بیویوں نے شوہر کی نافرمانی پر کمر کسی ہوئی ہے ۔ بنا اجازت باہر آنا جانا ۔ پارلر کے چکرلگانا ۔ بےجا شاپنگ کرنا ۔ شوہر کی ایک بات کے جواب میں دس سنانا۔ میکے میں یا دوستوں سے شوہر کی نام نہاد سختی کے خود ساختہ قصے سنانا۔ سسرال والوں کی غیبتیں کرنا ۔ شوہر سے بات بات پر بیزاری کا اظہار کرنا اورپھر خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے کہنا میرا شوہر مجھ پر مظالم کے پہاڑ توڑتا ہے اسے تو اللہ پوچھے گا۔ بچے ماں باپ کی بےجا روک ٹوک سے عاجز ضد میں ہر الٹا کام کر کے مظلوم بن جاتے ہیں اور ماں باپ بچوں کے ہاتھوں بےوقوف بن کر مظلوموں کی فہرست میں شامل ہیں ۔ مالک نوکر پر ظلم کرتا ہے تو نوکر بھی ادھار نہیں رکھتا کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار کر بدلہ لے کر مظلومیت کی چادر اوڑھ لیتا ہے ۔ حکمران عوام پر مہنگائی اور لاقانونیت لاگو کرنے کے بعد بھی مظلوم کہلاتا ہے اور عوام بطور احتجاج اپنی ہی املاک کو دہشت گردی کی نذر کرتے ہوئے مظلوم بن جاتی ہے ۔ غرض مظلومیت کے نام پر ہر شخص اپنا بدلہ خود لے رہا ہے اور جب بدلہ خود ہی لے لیا تو آخرت میں کس منہ سے انصاف طلب کرو گے؟ ہمارا اسلام ہمیں ظلم کی ممانعت کرنا سکھاتا ہے لیکن افسوس ہم ظلم کا پرچار کرتے ہیں ۔ اور بھول جاتے ہیں کہ مکافاتِ عمل بھی ہوتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ ہم انسانیت کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے ہیں - غریب طبقہ مظلوم ترین طبقہ ہے جس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں جن کے خوابوں کو یوں مسمار کیا جاتا ہے جیسے ریت پر بنے گھروندے کو سمندر کی لہریں بہا کر لے جائیں ۔۔ مظلوم تو حکومتِ وقت کے سامنے عوام ہے جو مختلف ٹیکسوں کی ادائیگی کے سلسلے میں ہلکان ہوئی جاتی ہے ۔ زرعی ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، بجلی اور گیس کا بل ، اور پیٹرول کے بوجھ تلے دبی جاتی ہے اور حکمران رشوت ۔ چور بازاری ، ناجائز تجاوزات ، اور مہنگائی کا بازار گرم کیئے بیٹھے ہیں ۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اصل مظلوم ہے کون ظالم ہے