مینار پاکستان کی تعمیر کا ذمہ اٹھانے والے ٹھیکیدار پر سرکاری اداروں و محکموں نے کیا ظلم ڈھائے ؟ جان کر آپ اس شخص کی ہمت کی داد دیں گے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 23, 2017 | 16:35 شام

لاہور (شیر سلطان ملک) لاہور میں داخل ہوتے ہی نظر آنے والا مینار پاکستان 23مارچ 1940ءکی تاریخ ساز قرار داد کو یاد رکھنے کے لیے بنایا گیا۔ پاکستان بننے کے فوراََ بعد تو نہیں مگر جب حالات کچھ سازگار ہوئے تو تحریک پاکستان کے مجاہدوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرنے کیلیے کوئی ترکیب سوچی جانے لگی کیونکہ یہی وہ قرارداد تھی جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔
مینار کی تعمیر کے لیے ٹینڈر 14مئی 1963ءکو منظور ہوا اور تعمیراتی کام کے آغاز کی ت

اریخ یکم جون طے پائی۔ تعمیراتی کام کا ٹھیکہ تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم رُکن میاں عبدالخالق کو دیا گیا۔ مناسب فنڈ اکٹھا نہ ہونے کی وجہ سے طے شدہ پروگرام کے تحت مینار کی تعمیر کا کام یکم جون 1963ءکو شروع نہ ہو سکا، لہٰذا مینار کی تعمیر کے لیے مغربی پاکستان کے اداروں اور ملک بھر کے مخیر حضرات سے ایک بار پھر چندے کی اپیل کی گئی۔ چندہ جمع کرنے کی ذمہ داری سیکرٹری انتظامیہ کمیٹی فیض احمد اسلم (چیف ایگزیکٹو افسر لاہور کارپوریشن) کے سپرد تھی۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بڑے بڑے صنعتکار اور مخیر حضرات دل کھول کر عطیات دیں گے اور ٹرانسپورٹر حضرات یہ سامان مفت پہنچائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہر کوئی اپنی اپنی شرائط پر چندہ دینا چاہتا تھا جنھیں انتظامیہ کمیٹی قبول نہ کرتی۔ سامان کا سب سے بڑا عطیہ چونتیس ٹن لوہا تھا ‘صرف ایک فلاحی تنظیم کی طرف سے ملا تھا۔ یوں کئی طرح کے مسائل پیش آنے کی وجہ سے مینار کا تعمیراتی کام بار بار تعطل کا شکار ہوتا رہا۔ مینار کے ٹھیکیدار میاں عبدالخالق ایک سیاسی کارکن اور فعال مسلم

لیگی تھے۔ اُنھوں نے 1941ءمیں

 پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت شروع کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ملازمت چھوڑ کر کنسٹرکشن کا کام کرنے لگے۔ وہ چونکہ ایک بھرپور سیاسی کارکن تھے اور اُنھوں نے صدر ایوب کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا اس بنا پر ان کے تعمیراتی بِل روک لےے جاتے یا تاخیری حربے اپنائے جاتے۔ اپنے بِلوں کی وصولی کے لےے انھیں عدالت کا سہارا تک لینا پڑا تھا۔ ان ہتھکنڈوں نے بھی مینار کے کام کو متاثر کیا۔ مینار کی تعمیر جو 23مارچ 1965ءتک مکمل کرنے کا منصوبہ تھا، مسلسل تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ فنڈ کی کمی ایک مستقل دردِسر بنی رہی جو تعمیراتی کاموں کو متاثر کرتی رہی۔ چار سال میں صرف تین لاکھ روپے جمع ہوسکے۔
 فنڈ کی فراہمی کے لیے حکومت نے تفریحات پر ٹیکس لگانے کے علاوہ منصوبے میں بھی تبدیلی کی اور اس میں شامل لائبریری اور آڈیٹوریم کی تعمیر بھی ملتوی کر دی۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے موقع پر بھی تعمیراتی کام رُکا رہا۔ مینارِ پاکستان اسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں 23مارچ 1940ءکی قرارداد کے وقت اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی نشاندہی میاں امیرالدین نے کی تھی۔ 96فٹ 6انچ اُونچا یہ مینار 31اکتوبر 1968ء/ 8شعبان 1388ھ کو مکمل ہوا۔ اس پر 75لاکھ روپے (بشمول جملہ مصارف اور باغِ دشت) صرف ہوئے۔
مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیشتر سامان پاکستانی ہے۔ سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیا گیا ہے۔ مینار 180فٹ لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے۔ اس کی 5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری 30فٹ کی اُونچائی پر ہے۔ مینار پر جانے کے لےے 334 سیڑھیاں ہیں جبکہ یہاں لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ تعمیراتی سامان بھی اس انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ یہ بذاتِ خود جدوجہد آزادی کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس کے ابتدائی چبوترے کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں کٹھن مراحل طے کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ اس سے اگلے چبوترے کی تعمیر پر قدرے ملائم پتھر استعمال کیا گیا جس سے مسلمانوں کی حالت میں بہتری کی عکاسی ہوتی ہے۔ یوں جوں جوں بلندی کی طرف جائیں ملائمت میں اضافہ ملے گا جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ پاکستان بتدریج ترقی کی طرف رواں دواں ہے جبکہ مینار کے آخری سِرے پر چمکنے والا گُنبد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان عالمِ اسلام میں خوب روشن مقام رکھتا ہے۔
افتتاح کی تاریخ 23مارچ 1969ءمقرر ہوئی۔ مغربی پاکستان حکومت نے ڈویژنل اور ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کی ان ممتاز شخصیات کی فہرست تیار کریں جن کا تعلق قرارداد پاکستان کے سلسلہ میں منعقدہ تاریخی اجلاس لاہور سے رہا ہو تاکہ مینار کی افتتاحی تقریب میں مدعو کیا جاسکے۔ عوام چاہتے تھے کہ مینار کا افتتاح ملک کے دونوں حصوں کے سربراہ یا صدرِ پاکستان کریں۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ مینار کا افتتاح صدر ایوب خان کریں گے، تاہم ملکی سیاسی حالات کی ابتری کی وجہ سے اس کی نوبت بھی نہ آسکی اور مینار کو بغیر افتتاح 23مارچ 1969ءکے روز کھول دیا گیا۔ گورنر عتیق الرحمن نے نومبر 1970ءمیں جا کر کہیں مینار کا دورہ کیا۔
جون 1982ءسے اس کا انتظام وانصرام لاہور کے ترقیاتی ادارے (ایل ڈی اے) کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اس ادارے نے یہاں مرحلہ وار بہتری کے پروگرام بنائے۔
پارک کا رقبہ تقریباً 90ایکڑ ہے۔ اس میں سے بیشتر درخت کاٹ کر اسے پارک کی شکل دی گئی ہے۔ پارک کو خوبصورت فواروں، نشستوں، راستوں، پھولوں کی کیاریوں، آہنی جنگلوں اور گھاس کے قطعات سے آراستہ کیا گیا ہے۔ بجلی کا بیشتر نظام مینار کے 10فٹ گہرے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔