ہائے ”خوش بخت“ کو کس وقت خدا یاد آیا
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اکتوبر 01, 2016 | 03:16 صبح
لاہور(ویب ڈیسک)مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاٹا
کے عوام پر مقبوضہ کشمیر جیسے مظالم ہو رہے ہیں
حضرت مولانا کشمیر کمیٹی کے اپنے صحت مند سراپا کی طرح سدا بہار چیئرمین ہیں۔ اصولی طور پر کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو مقبوضہ کشمیر کے معاملات ازبر ہونے چاہئیں، حضرت مولانا کو جن اصولوں کی بنیاد پر کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ ان کی سیاسی زندگی ایسے ہی اصولوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے ”تھو کوڑی“، ایسے ہی اصولوں کے گرد گھومتی ہے۔ کہا جاتا ہے فاٹا کے عوام پر مظالم کا تذکرہ انہوں نے بڑی ناراضی اور غصے سے مٹھیاں بھینچ کر کیا۔ مولانا اصولی طور پر ایسے مواقع پر ایک مٹھی بند دوسری کھول کر حالات کو بھانپتے ہوئے ذخیرہ خوراک معلیٰ کےآگےاور کبھی کمر کے پیچھے لے جاتے ہیں۔ بھارت کی جارحیت سے ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری سے پاک فوج کے جوانوں کی شہادت پر قوم غم و غصہ میں ہے۔ ایسے موقع پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور بھارت کو اپنے متحدہ ہونے کا پیغام دینے کی ضرورت ہے مگرمولانا اپنے تئیں فاٹا کے عوام کے ووٹ پکے کر رہے ہیں....
ہائے ”خوش بخت“ کو کس وقت خدا یاد آیا
کیا یہ ایسے بیانات کا موقع ہے۔
ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
حضرت کے بھارت میں مفادات ہونگے مگر انہوں نے عزت، دولت، شہرت اور سب سے بڑھ کر کشمیر کمیٹی کی صورت میں لاٹری اور کمیٹی نکلتی چلی جا رہی ہے۔ مولانا نے اپنی تدبیر سے کشمیر کمیٹی کو سونے کی کان بنا لیا ہے، یہ کان انہوں نے پاکستان ہی سے پائی ہے۔ بلاشبہ سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں، اس عبادت میں خشوع و خضوع کیلئے حیدری اور درانی کو وزراءکی ”جماعت میں شامل کرالیا۔مسئلہ کشمیر کی گونج بھارتی بربریت اور بہمیت کے بعد پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے ملا مجاہد کو تو اس جہاد میں کمانڈر ہونا چاہئیے مگر وہ بھارتی بربریت، مظالم اور جبر کو فاٹا میں بدانتظامی پر منطبق کر رہے ہیں....
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی