ادلے کا بدلہ۔۔۔اختر علی مونگا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 08, 2016 | 21:16 شام

ادلے کا بدلہ کل شام (04-10-2016) کو اےک نجی ٹی وی چینل پر مسلم لےگ (ن) کے سنیٹر نہال ہاشمی عوامی مسلم لےگ کے شیخ رشید احمد پر برس رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ "اس جیسے مسخرے سیاسی پارٹیوں مےں آ گئے ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بد زبانی، بدکلامی اور گستاخیاں کرتے ہےں جو نہایت معیوب ہے اور ےہ بد تمیزی بند ہونی چاہئے" وہ خاصے برہم نظر آئے تھے قارئین کو اچھی طرح یاد ہے کہ ےہ وہی شیخ رشید احمد فرزند راولپنڈی ہیں جو تھوڑا عرصہ پہلے تک ہمارے وزیراعظم "جناب میاں صاحب" کے دست راست، رازدار اور کشمیری نژاد ہونے کی وجہ سے بہت قریب تھے اور سر بازار مخالف سیاستدانوں کی پگڑی اچھالنے کے فن پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ان کے پسندیدہ ساتھی تھے اور وہ ان حرکات کی وجہ سے ہی ان کو بہت پسند تھے اور پسندیدگی کی وجہ ےہی خصوصیت تھی جس سے وہ بہت محظوظ اور لطف اندوز ہوتے تھے اب ےہ جگہ پروےز رشید اور ان کے گروپ کے باقی ساتھیوں نے لے لی ہے مخالفےن جو شیخ رشید احمد کے اس فن کی زد میں آتے تھے ان مےں پیپلز پارٹی اور خاص کر محترمہ بینظیر بھٹو تھیں۔ شیخ رشید احمد ہمیشہ محترمہ کو ایسے گھٹیا غلیظ نازیبا اور گندے القابات سے نوازتے تھے جن کو یہاں دہرایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ وہ اخلاق سے ہر لحاظ سے گرے ہوئے ہوتے تھے۔ 1989ءمےں اےک ضمنی الیکشن کے سلسلے مےں گوجرانوالہ مےں "میاں صاحب" کی موجودگی میں ایک اجتماع ہوا جس کو پہلے ایک MPA نے خطاب کیا جن کا ذکر کرنے پر بھی زبان کے پلید ہونے کا خطرہ ہے اس نے اس وقت کی وزیراعظم کے خلاف اتنی دشنام طرازی کی کہ الامان والحفیظ۔ اس کے بعد شیخ رشید احمد نے بار بار سٹیج سے دونوں ہاتھ بلند کر کے اپنے جوشیلے انداز تخاطب مےں ےہ نعرہ لگایا "میاں جی" سٹیج کے سامنے بٹھائے ہوئے خاص بندے فقرہ مکمل کرنے کے لیے کہتے "تن کے رکھو" پورا جملہ یہ ہوا کہ (میاں جی۔ تن کے رکھو) یاد رہے کہ اب بھی مسلم لیگ (ن) کا یہی عمومی نعرہ ہے پہلے پانچ سات منٹ سٹیج سے شیخ رشید احمد یہی نعرہ لگاتے رہے اس کے بعد وقفے وقفے بعد اس کو دہرایا گیا "میاں صاحب" اس اثنا میں کھڑے ہو کر محظوظ ہوتے رہے اس کے بعد باقی لوگوں کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور جلسے کی کارروائی شروع ہو گئی اور ہر مقرر کی تقریر سے پہلے اور اس کے بعد شیخ رشید احمد یہی جملہ بار بار دہراتے رہے اور ہر دفعہ سٹےج پر بیٹھے ہوئے میاں صاحب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے رہے اور "میاں صا حب" زیر لب مسکرا کر خوش ہوتے رہے اس دوران ان سے بار بار گزارش کی گئی کی جناب ےہ الفاظ ناپسندیدہ ہیں اور اس سلسلے کو بند کر دینا چاہئے مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا اب وہی شیخ رشید احمد وہی ہتھکنڈے ان کے خلاف استعمال کر رہے ہےں بلکہ کسی وقت جوش و جذبے مےں زیادتی کر جاتے ہےں جو نامناسب ہے اس مےں کوئی شک نہےں کہ شیخ رشید احمد جو اس وقت "میاں صاحب" کو خوش کرنے کے لئے دوسروں کے ساتھ کرتے تھے وہ بھی غلط تھا اور اب جو "میاں صاحب" کے خلاف کرتے ہیں ےہ بھی بہت غلط ہے۔ مگر اس کو کیا کہیں گے اسے کہتے ہےں " ادلے کا بدلہ" ےا "مکافات عمل"۔ اس کی ایک اور مثال بھی ملاحظہ فرمائیں جب محترمہ وزیراعظم تھی اور ان کی لاہور آمد پر "میاں صاحب" بطور وزیراعلیٰ پنجاب ان کے استقبال کے لئے ائر پورٹ پر نہیں جاتے تھے حالانکہ ےہ اصولاً ان کی مجبوری تھی کیونکہ ےہ پروٹوکول کا تقاضا تھا جب میاں صاحب نے اس کو معمول ہی بنا لیا تو محترمہ ان کے گھر پہنچ گئیں اور اچھے انداز سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور تعاون کی درخواست کی مگر میاں صاحب نے اس کو درخور اعتناءنہ سمجھا اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ وزیراعظم بن گئے مگر جلد ہی معاملات بگڑ گئے اور غلام حیدر وائیں کی جگہ میاں منظور احمد وٹو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیئے گئے تو انہوں نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ اگلے پچھلے سارے حساب برابر ہو گئے یہاں تک کہ جب ان کے ماڈل ٹاﺅن مےں واقع گھر کے جنگلے توڑنے کے لئے آپریشن کیا گیا تو یہ سارے صاحبان گھر کے اندر موجود تھے اور باہر ساری کارروائی مکمل ہوتی رہی اندر موجود ہوتے ہوئے جس کوفت کا سامنا کرنا پڑا وہ تو یہی بیان کر سکتے ہےں۔ سارے سیاستدان اےک دوسرے کو تنبیہ کرتے رہتے ہےں کہ اقتدار مےں ہوتے ہوئے اتنی زیادتی کریں جتنی آپ اپنی دفعہ برداشت کر سکیں لیکن پاکستان کی تاریخ مےں دیکھا گیا کہ اس پر کوئی بھی عمل نہےں کرتا اور اقتدار کے نشے مےں طاقت کے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے ہر چےز کو پاﺅں تلے روند ڈالنے کا مزہ لینے مےں فخر محسوس کرتے ہےں ۔ لےکن ایسا کرتے ہوئے ےہ سب لوگ قدرت کے اٹل قانون کو بھول جاتے ہےں کہ "جےسا کرو گے وےسا بھرو گے" سیانے کہتے ہےں کہ اگلے جہاں کا تو اللہ کو پتہ ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر انسان اس دنےا مےں ہی اپنا حساب چکا کر جاتا ہے۔ واللہ اعلم و بالصواب۔ اےک فرق ہے کہ میاں صاحب کچھ نہےں کرتے بلکہ سب کچھ دوسروں سے کرواتے ہےں۔ مگر ےہ سب کچھ ان کے ایما پر ہوتا ہے۔ عمران خان کی شکل مےں بھی ایک صاحب سامنے آ گئے ہیں۔ جو زبان کے استعمال میں احتیاط نہےں کرتے بلکہ خاصی بے احتیاطی کر جاتے ہیں۔ اور کسی وقت تکلیف دہ باتیں کر جاتے ہیں۔ مگر جناب میاں صاحب کے ساتھی بھی کچھ کم نہیں۔ خاص کر جناب پرویز رشید۔ ان کی تو یہ ڈیوٹی بھی ہے اور ان کا تقاضائے منصبی بھی ہے کہ وہ ہر قیمت پر حکومت کے موقف کی تائید کریں اور اس کا بچاﺅ کریں۔ چاہے ان کو غلیل اور دلیل جیسی بے کار اور غیر متعلقہ اصطلاحات کا استعمال ہی بروئے کار کیوں نہ لانا پڑے۔ وہ اکثر اپنی تقاریر مےں دور کی کوڑی لاتے ہی نظر آتے ہیں اور مذاق کا باعث بنتے پائے جاتے ہےں۔ بعض دفعہ ان کے ساتھ ان کو داد بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ جناب چودھری نثار علی نے فرمایا کہ "عمران خان کے لئے پرویز رشید ہی کافی ہے۔ یادش بخیر محمد علی درانی سابقہ وزیر اطلاعات کے بارے مےں اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ یہ محمد علی غلط بیانی ہے۔ "ہماری گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے۔ واللہ غالب علی امرہی۔ اور مکافات عمل کے لئے۔ بلک ایام ندا الھا بن الناس۔ بندے وہی ہوتے ہےں اللہ تعالی دن بدل دیتا ہے۔ ایک دن آصف علی زرداری کو ملنے کے لئے لاہور جیل کی ڈیوڑھی میں محترمہ بینظےر بھٹو اپنے تینوں بچوں کے ساتھ سخت گرمی اور حبس کے دنوں میں زمین پر اینٹیں رکھ کر بیٹھی تھیں اور انتظار کی شدت سے بے حال تھیں۔ اور پھر ایک دن لاہور سے میاں صاحب کو جہاز پر لے جاتے ہوئے فوج والوں نے سیٹ کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دےا تھا۔ دونوں سابقہ وزیراعظم پاکستان رہ چکے تھے۔ اللہ نے فرمایا فلن تجدلسنتہ اللہ تبدیلا۔ اے رسول آپ دیکھیں گے کہ آپ کا اللہ اپنے اصولوں کو کبھی نہیں بدلتا۔ اللہ تعالیٰ علم خیبر اور بصیر ہے۔ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اور بندہ جو کچھ کرتا ہے۔ ےہ ریکارڈ ہو رہا ہے۔ اور اس کو اس سے confront کرایا جائے گا۔ لہٰذا اس گھڑی کے آنے سے پہلے ہی اس کا انتظام کر لیا جائے گا۔