دنیا کی بیس خوبصورت مساجد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 24, 2016 | 09:50 صبح

 
 

خصوصی رپورٹ

دنیا کی بیس خوبصورت مساجد

الصالح مسجد

یمن کے شہر صنعا میں تعمیر کی جانے والی یہ مسجد اپنے شہر کی سب سے بڑی اور جدید مسجد ہے-

یہ مسجد شہر کے جنوبی مضافات میں واقع ہے-

اس مسجد کا افتتاح 2008 میں یمنی صدر علی عبداﷲ صالح نے کیا-

27300 اسکوائر م

یٹر کے رقبے پر پھیلی اس مسجد  میں44 ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں

 

al-saleh mosque-

اس مسجد کا مرکزی ہال 13596 اسکوائر میٹر کے رقبے پر

پھیلا ہوا ہے۔

یہ مسجد فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔

مسجد الصالح کے چھ مینار اور پانچ گنبد ہیں میناروں کی اونچائی ۵۲۰ فٹ ہے۔

اس مسجد میں خواتین کی نماز کے لئے مخصوص جگہ بنائی گئی ہے جس میں ۲۰۰۰ خواتین بیک وقت نماز ادا کر سکتی ہیں۔

 

ortakoy mosque

اورتا کوئے مسجد (استنبول)

۱) اورتاکوئے مسجد جس کا باقاعدہ نام “بیوک مجیدیہ جامعی” یعنی شاہی جامع مسجدِ سلطان عبد المجید ہے، ترکی کے شہر استنبول میں واقع ایک مسجد ہے۔

۲) یہ استنبول کو دو براعظموں یورپ اور ایشیا میں تقسیم کرنے والی آبنائے باسفورس کے کنارے واقع ہے

۳)اصل اورتاکوئے مسجد 18 ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی جبکہ موجودہ مسجد عثمانی سلطان عبدالمجید اول کے حکم پر 1854ء سے 1856ء کے دوران تعمیر ہوئی۔

۴) مسجد اورتاکوئے اس طرز تعمیر میں قائم دنیا کی واحد مسجد ہے۔ مسجد کے دو مینار بھی ہیں۔ اس کی دیواریں سفید پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔

۵)اس کے وسیع و عریض دریچوں سے مسجد میں ہر وقت سورج کی روشنی براہ راست اور باسفورس کے پانیوں پرپھیلی رہتی ہے۔

۶) مسجد کے قریب سے آبنائے باسفورس پر قائم “باسفورس پل” گذرتا ہے جو ایشیا اور یورپ کو آپس میں ملاتا ہے۔

 

 

Badshahi mosque

بادشاہی مسجد لاہور

بادشاہی مسجد ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزب عالمگیر نے ۱۶۷۱ میں بنوائی اور یہ مسجد ۱۶۷۳ میں اپنی تکمیل کو پہنچی۔

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ مذہبی ذہنیت رکھتے ہیں ۔

بادشاہی مسجد مغلیہ دور کی ایک شاندار مثال ہےاور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے اس کے علاوہ سیاحوں کی توجہ کا موکز بھی ہے۔

مسجد کا طرزِتعمیر دلی کی جامع مسجد سے کافی مماثلت رکھتا ہے ۔

بادشاہی مسجد پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے جبکہ جنوبی ایشیا کی پانچویں بڑی مسجد بھی ہے۔

مسجد میں بیک وقت ساٹھ ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں ۔

اس مسجد کے چار بڑے مینار ہیں جو کہ ۵۴ میٹر ہیں اور انکی اونچائی تاج محل کے میناروں سے بھی زیادہ ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۶۰ میں حکومتِ پاکستان نے بادشاہی مسجد کو دوبارہ تعمیر کروایا او اپنی اصل شکل میں واپس لایا گیا۔ جس نے اس مسجد کی شان و شوکت کو دوبالا کردیا۔

 

bibi khanum mosque

بی بی خانم مسجد

بی بی خانم مسجد ازبکستان کی مشہور تاریخی مسجد ہے جو 14 ویں صدی کے عظیم فاتح امیر تیمور نے اپنی اہلیہ سے موسوم کی تھی۔

تیمور نے 1399ء میں ہندوستان کی فتح کے بعد اپنے نئے دارالحکومت سمرقند میں ایک عظیم مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس مسجد کا گنبد 40 میٹر اور داخلی راستہ 35 میٹر بلند ہے۔

یہ مسجد انیسویں صدی میں زلزلے میں تباہ ہوگئی تھی جو بعد میں 1970 کی دہائی میں بحال کی گئی۔

اس مسجد کی تعمیر 1399ء میں شروع اور 1404ء میں مکمل ہوئی۔ لیکن بہت کم عرصے میں تعمیر کے باعث اس کی تعمیر میں کئی تکنیکی خامیاں تھیں جس کی وجہ سے یہ زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکی اور بالآخر 1897ء کے زلزلے میں زمین بوس ہو گئی۔

1974ء میں حکومت ازبکستان نے اس کی تعمیر نو کا آغاز کیا اور موجودہ عمارت مکمل طور پر نئی ہے جس میں قدیم تعمیر کا کوئی حصہ شامل نہیں۔

 

pathar mosque

پتھر مسجد (سرینگر)

پتھر مسجد مغل بادشاہ جہانگیر کے دورِ حکومت میں ان کی ملکہ نورجہاں کے کہنے پر 1632ءمیں تعمیر کی گئی۔

یہ مسجد وادی کشمیر میں مغل فن تعمیر کا ایک شاہکار نمونہ ہے۔

اس مسجد کا ذکر شاہی مسجد، مسجد سنگین اور نئی مسجد کے ناموں سے بھی کیاگیا ہے۔

تاریخ کے مطابق فاضل خان کے دور حکومت1704-1697ءمیں پتھر مسجد کی مرمت کی گئی۔

175۴ءکے قحط اور خشک سالی میں کشمیر کے گورنر سکھ جیون مل نے اس مسجد کوبہت عرصے تک گودام کے طورپر استعمال کیا ۔

ہزار خان کے وقتِ حکومت میں دوبارہ اس مسجد کی مرمت کی گئی۔ اس طرح یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت مسجد کو پھر آباد کیاگیا تھا۔ اس کے بعد کب اس مسجد میں نماز پر پابندی عائد ہوئی اس کے بارے میں کچھ بھی شہادت نہیں ملتی ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ لوگوں کے پرُزور اصرار پر مہاراجہ ہری سنگھ کے دور حکومت میں 1931 میں اس مسجد کو نمازیوں کےلئے کھول دیاگیا۔

پتھر مسجد کی لمبائی180فٹ اور چوڑائی 54فٹ ہے ، اس کی بنیاد میں بڑے بڑے تراشیدہ پتھر لگائے گئے ہیں۔

اوپر مسجد کے صدر دروازے کے دونوں طرف چار چار محرابی کھڑکیاں ہیں۔

مسجد کی لمبائی کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے ہر حصہ آٹھ آٹھ ستونوں پر مشتمل ہے ۔

ہرستون کا نچلا حصہ پتھروں کا اور اوپری حصہ اینٹوں سے چنا گیاہے۔

اندرونی چھت میں 27 گنبد موجود ہیں جن کو کھلے ہوئے کنول کی شکل دی گئی ہے۔

پتھر مسجد کے صحن میں تراشیدہ پتھر اس طرح بچھائے گئے تھے کہ سارا صحن ایک بڑا پتھر معلوم ہوتا تھا۔

پتھر مسجد مغلیہ اور قدیم ہندوستانی طرزِ تعمیر کا ایک انوکھا شہکار ہے جسے دیکھ کر ایک لمحہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

 

sultan ahmed mosque

سلطان احمد مسجد(ترکی)

سلطان احمد مسجد المعروف نیلی مسجد ترکی کے سب سے بڑے شہر اور عثمانی سلطنت کے دارالحکومت استنبول میں واقع ایک مسجد ہے۔ اسے بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔

یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں۔ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے مسجد الحرام کے میناروں کی تعداد سات کردی۔

مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے جس کا قطر 33 میٹر اور بلندی 43 میٹر ہے۔

مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو 20 ہزار ہاتھوں سے تیار کردہ ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے ۔ دیوار کے بالائی حصوں پر رنگ کیا گیا ہے۔

مسجد میں شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گذر رہے۔

اس مسجد کے اندر قرآن مجید کی آیات اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے کی۔

مسجد کے طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

 

sultan omar ali saifuddin mosque

سلطان عمر علی سیف الدین مسجد (برونائی)

سلطان عمر علی سیف الدین مسجد سلطنت برونائی کے دارالحکومت بندری سری بیگوان میں واقع شاہی مسجد ہے۔

یہ خطۂ ایشیا بحر الکاہل کی خوبصورت ترین مساجد اور ملک کے معروف سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔

یہ مسجد برونائی کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔
مسجد، برونائی کے 28 ویں سلطان سے موسوم ہے۔ اس کی تعمیر 1958ء میں مکمل ہوئی اور یہ جدید اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھی جاتی ہے جس پر اسلامی اور اطالوی طرز تعمیر کی گہری چھاپ ہے۔

یہ مسجد دریائے برونائی کے کناروں پر واقع ایک مصنوعی تالاب پر تعمیر کی گئی۔

مسجد سنگ مرمر کے میناروں، سنہرے گنبدوں، صحنوں اور سر سبز باغات پر مشتمل ہے۔
مسجد کا مرکزی گنبد پر خالص سونے سے کام کیا گیا ہے۔

مسجد 52 میٹر بلندی پر واقع ہے اور بندر سری بیگوان شہر کے کسی بھی حصے سے با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ میناروں میں جدید برقی سیڑھیاں نصب ہیں جو اوپر جانے کے کام آتی ہیں۔ مسجد کے میناروں سے شہر کا طائرانہ منظر قابل دید ہے۔

 

sultani mosque

سلطانی مسجد (ایران)

سلطانی مسجد ایران کے صوبہ لورستان کے شہر بروجرد کی ایک عظیم مسجد ہے۔

یہ عظیم الشان مسجد قاچار دور حکومت میں ایک قدیم مسجد کے کھنڈرات کی جگہ تعمیر کی گئی۔

قدیم مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 10 ویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئی۔

اس مسجد کی تعمیر کا حکم قاچار حکمران فتح علی شاہ قاچار نے دیا تھا اور ان کی نسبت سے اسے سلطانی مسجد کہا جاتا ہے۔

مسجد میں بنے لکڑی کےدروازے کاریگری کی اعلٰی مثال ہیں۔

مسجد کا صحن 61 ضرب 47 میٹر کا ہے ۔ پہلوی دور میں سلطانی مسجد “مسجد شاہ” کے نام سے جانی جاتی تھی اور آج اسے مسجد امام خمینی کہا جاتا ہے۔ مارچ 2006ء میں آنے والے زلزلے سے مسجد سلطانی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

 

ghazi khusro baig mosque

غازی خسرو بیگ مسجد

غازی خسرو بیگ مسجد جسے مختصراً بیگ مسجد بھی کہا جاتا ہے، بوسنیا و ہرزیگووینا کے دارالحکومت سرائیوو کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے ملک کا اہم ترین اسلامی مرکز اور عثمانی طرز تعمیر کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔

اس مسجد کو۱۵۳۱ء میں غازی خسرو بیگ کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔ اس مسجد کو عثمانیوں کے مشہور معمار سنان پاشا نے تعمیر کیا ۔

محاصرۂ سرائیوو کے دوران دیگر کئی مقامات کے علاوہ اس مسجد کو بھی سرب جارح افواج کے ہاتھوں سخت نقصان پہنچا۔

۱۹۹۶میں اس مسجد کی تعمیر نو کا کام شروع کیا گیا۔

یہ مسجد آج بھی شہر کی عبادت گاہوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔

خسرو بیگ نے ۱۵۳۱ء سے ۱۵۳۴ء کے درمیان حلب، شام میں بھی ایسی ہی ایک مسجد تعمیر کرائی جو خسرویہ مسجد کہلاتی ہے۔

مسجد کا ایک گنبد ہے جو کہ عثمانی معمار سنان پاشا کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ گنبد کی اونچائی ۲۶ میٹر۔

غازی خسرو بیگ مسجد ایک مینار پر مشتمل ہے جسکہ بلندی ۴۷ میٹر ہے۔

 

fateh mosque

فاتح مسجد (استنبول)

فاتح مسجد استنبول کے ضلع فاتح کی ایک جامع مسجد ہے جو عثمانی عہد میں قائم کی گئی۔

یہ استنبول میں ترک اسلامی طرز تعمیر کا ایک اہم نمونہ ہے اور ترک طرز تعمیر کے ایک اہم مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے۔

فاتح مسجد فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی المعروف محمد فاتح کے حکم پر تیار کی گئی۔

یہ فتح قسطنطنیہ کے بعد تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد تھی۔

ماہر تعمیرات عتیق سنان تھے جنہوں نے 1463ء سے 1470ء کے عرصے میں اس مسجد کو تعمیر کیا۔

مسجد کا صحن، مرکزی داخلی دروازہ اور میناروں کے نچلے حصے ہی اولین تعمیرات کا حصہ ہیں جن پر 1771ء میں دوبارہ مسجد تعمیر کی گئی۔مسجد کے باغ میں سلطان محمد فاتح اور انکی اہلیہ گل بہار خاتون کے مزاربھی قائم ہیں۔

یہ مسجد خوبصورتی اور انوکھے فنِ تعمیر کے لحاظ سے ایک انوکھی مسجد ہے۔

 

Kul Sharif Mosque

قُل شریف مسجد (روس)

قل شریف مسجدروس کے علاقے تاتارستان کے دارالحکومت قازان میں واقع ہے۔

یہ مسجد( احمد قدیروف گروزنی) چیچینیا کے بعد روس کی دوسری بڑی مسجد ہے۔

مسجد قُل شریف میں بیک وقت 6000 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔
یہ مسجد 16 ویں صدی میں قازان میں تعمیر کی گئی۔

1552ء میں سقوط قازان کے بعد روسیوں نے اس مسجد کو شہید کر دیا۔ 1996

ء میں اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کا آغاز ہوا جو جدید طرز تعمیر کی حامل ہے۔

نئی مسجد کا افتتاح جولائی 2005 کو ہوا۔

نیلے گنبد کی حامل قُل شریف مسجد اپنی نوعیت کی ایک انوکھی مسجد ہے جو خوبصورتی اور طرزِ تعمیر کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے ۔

اسے روایتی وولگا بلغاریہ انداز میں تیار کیا گیا تھا لیکن عثمانی انداز بھی استعمال کیا گیا تھا۔

 

Istiqlal Mosque Monas

مسجد استقلال (جکارتہ)

استقلال مسجد انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں واقع ایک مسجد ہے۔

جسے جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ مسجد 1975ء میں حکومت انڈونیشیا نے تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں بیک وقت 120،000 نمازی عبادت کر سکتے ہیں۔

مسجد کے مرکزی گنبد کا قطر 45 میٹر قطر ہے۔

نماز و عبادت کے علاوہ مسجد مختلف سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے، جس میں نمائشیں، مذاکرے، مباحثے اور عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کے لیے مختلف نوعیت کی تقاریب شامل ہیں۔

مسجد کے دو گنبد اور ایک مینار ہے جسکی بلندی ۶۶۔۹۶

میٹر ہے۔

مسجد استقلال بین الاقوامی طرزِ تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے۔

 

al hakim mosque cairo

مسجد الحاکم (کاہرہ) 

الحاکم مسجد مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع ایک مسجد ہے جو فاطمی دورِ حکومت کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

اس مسجد کی تعمیر کا آغاز 990ء میں فاطمی خلیفہ ابو منصور نظار العزیز کے دور حکومت میں شروع ہوا اور ان کے بیٹے کے دور حکومت میں 1013ء میں اس کا کام تکمیل کو پہنچا۔

یہ مسجد قاہرہ میں آنے والے ایک زلزلے سے شدید متاثر ہوئی تھی۔

اور 1989ء میں سیدنا محمد برہان الدین اور ان کے پیروکاروں نے اس کی تعمیر نو کی اور مصر کے اُس وقت کے صدر محمد انور السادات نے اس کا افتتاح کیا ۔

مسجد الحاکم کا وسیع و عریض صحن اسے دوسری مساجد سے ممتاز کرتا ہے جس میں بیک وقت ایک لاکھ نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔

مسجد الحاکم کے دو مینار اور ایک گنبد فاطمیہ طرزِ تعمیر کا شاہکار ہیں ۔

ہرسال لاکھوں سیاح مصر کا رخ کرتے ہیں اور مسجد الحاکم جیسی تاریخی اہمیت کی حامل مسجد کو دیکھ فاطمیہ دور کا مطالعہ کرتے ہیں۔

 

bhong mosque pakistan

مسجد بھونگ (رحیم یار خان، پاکستان)

اسلام میں مسجد کی بے پناہ اہمیت ہے ایک طرف تو یہ اللہ کی عبادت کی جگہ ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کے درمیان سماجی رابطے کی جگہ بھی ہے۔

مسلم فنِ تعمیر بھی مسجدوں سے ہی عیاں ہوتا ہے۔ جس کی زندہ مثال ضلع رحیم یارخان کی تحصیل صادق آباد میں ایک گاؤں میں واقع ’بھونگ مسجد‘ہے۔

گاؤں کے ایک زمیندار سردار رئیس غازی محمد اندھر نے سن 1932 میں مسجد کی تعمیر شروع کرائی جو کہ سن 1982 تک جاری رہی ۔

مسجد سردار رئیس کے محل کے احاطے میں واقع ہےا ور سن 1986 میں اسے ’آغا خان ایوارڈ آف آرکیٹیکچر‘بھی دیا جاچکا ہے۔

مسجد کی تعمیر میں پاک وہندکے فنکاروں نے حصہ لیا جس میں راج معمار راجستھان سے آئے۔

مسجد بھونگ میں حالیہ اضافہ سفید سنگِ مر مر کا قرآن ہے جسے برآمدے میں نصب کیا گیا ہے۔

اسلامی فنِ تعمیر کی اس خوبصورت مسجد کو ۲۰ صدی کا شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی ماہرینِ تعمیر نے اسے دنیا کی چھٹی خوبصورت ترین عمارت قرار دیا ہے۔

 

jamea mosque herat

مسجد جامع (ہرات)

ہرات کی بڑی مسجد جامع، افغانستان کی خوبصورت مساجد میں سے ایک ہے۔

یہ مسجد ۱۴۰۰سال پرانی ہے۔ اس کی معماری قابل قدر ہے۔

اس مسجد کو زیادہ تر تیموریوں کی حکمرانی کے دوران وسعت اور ترقی ملی ہے۔

عہد تیموریان میں تعمیر کی گئی مسجد کا صرف ایک چھوٹا حصہ اس کے جنوبی دروازہ پر باقی بچا ہے۔ تیموری اپنے سلیقہ سے تزئین کرتے تھے،اس لئے اس مسجد کی غوری حکومت کے دوران کی گئی تعمیر تیموریوں کےدورمیں کی گئی تعمیر کے نیچے دب گئی ہے۔

یہ مسجد، افغانستان کے قدیمی تاریخی آثار میں سے ایک ہے۔

ہر دیکھنے والا جب پہلی بار اس مسجد کو دیکھتا ہے، پہلے ہی لمحہ میں اس عظمت والی اور خوبصورت مسجد کی دلفریب اور باشکوہ معماری کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔

اس خوبصورت اور حیرت انگیزعمارت کی جگہ پر، اسلام سے کئی ہزار سال پہلے آریاؤں کا ایک چھوٹا عبادت خانہ تھا جو لکڑی کا بنا ھوا تھا۔ ہرات کے لوگوں کے دین اسلام کو قبول کرنے کے بعد سنہ ۲۹ ہجری میں یہ عبادت خانہ مسجد میں تبدیل ھوا ہے۔

ملک معزالدین کرت کی حکمرانی کے زمانہ میں اس مسجد کی خوبصورتی کو بڑھاوا دیا گیا۔ ایک سو سال گزرنے کے بعد (تیموری بادشاھوں کے) شاہ رخ میرزا کے زمانہ میں اس مسجد کی دیواریوں کو معرق ٹائیلوں اور خوبصورت خطاطی سے سجایا گیا ہے۔

 

hassan sani mosque

مسجد حسن ثانی

منفرد طرز تعمیر کی حامل مسجد حسن الثانی مراکش کے شہر کاسابلانکا میں واقع ہے۔

اس مسجد کا ڈیزائن فرانسیسی ماہر تعمیرات نے تیار کیا۔ اس نے مسجد کے ڈیزائن کی تیاری میں اسلامی فن تعمیر سے مدد لی۔ مسجد میں ایک لاکھ سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔

یہ دنیا کی ساتویں بڑی مسجد ہے۔

اس مسجد کا مینار دنیا کے بلند میناروں میں شمار ہوتا ہے جس کی بلندی 210 میٹر(689 فٹ) ہے۔

اس مسجد کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس کا آدھاحصہ سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر اور آدھاحصہ بحر اوقیانوس کی سطح پر ہے۔

اس کے فرش کا ایک حصہ شیشے کا ہے جہاں سے سمندر کا پانی دکھائی دیتا ہے۔

اسلامی فن تعمیر کے ساتھ ساتھ یہ مسجد کئی جدید سہولیات سے بھی مزین ہے جن میں زلزلے سے محفوظ ہونا، سردیوں میں فرش کا گرم ہونا وغیرہ شامل ہیں ۔

مسجد کے تعمیراتی کام کا آغاز 12 جولائی 1986ء کو کیا گیا اور افتتاح 1989ء کے بجائے تاخیر کے باعث 1993ء کو ہوا۔ مسجد کی تعمیر میں مراکش بھر کے 6 ہزار ماہرین نے 5 سال تک محنت کی۔

 

spill bandi mosque sawat

مسجد سپل بانڈی (سوات)

کہا جاتا ہے کہ سن پندرہ سو عیسوی اور سولہ سو عیسوی کے درمیان یوسف زئی قبیلے نے سوات پر حملہ کیا اور یہاں پر قبضہ جما لیا۔

اُسی دور میں سپل بانڈئی کے مقام پر یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ مختلف ادوار میں اس مسجد کی توسیع کا کام جاری رہا۔ سپل بانڈئی کی اس تاریخی مسجد کی تصدیق شدہ تاریخ تین سو پندرہ سال پیچھے تک جاتی ہے۔

علاقے کے وسط میں واقع ہونے اور علاقے کی واحد مسجد ہونے کے باعث یہ مسجد لوگوں میں اخوت و یگانگت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

سپل بانڈئی کی اس تاریخی مسجد میں لکڑی پر کندہ کاری کا کام نہایت مہارت اور عمدہ طریقے سے کیا گیا ہے۔ مسجد کے ستونوں، دروازوں اور محراب کو سوات کے روایتی نقش و نگار سے سجایا گیا ہے، جسے سواتی اسٹائل کہا جاتا ہے۔

گاؤں کے رہائشیوں کے مطابق اس میں چھ قسم کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ دیار کی لکڑی پر جو کندہ کاری کی گئی ہے، وہ تین سو پندرہ سال سے اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔

تعمیر و توسیع اور تزئین و آرائش کے بعد سپل بانڈئی کی تاریخی مسجد کو نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف علاقوں کے لوگ مسجد کو دیکھنے اور وہاں پر عبادت کے لیے آتے ہیں۔

 

qurtaba mosque

مسجد قرطبہ

اندلس کے پہلے اموی خلیفہ، عبدالرحمن الداخل نےفیصلہ کیا کہ گرجا کی جگہ ایک شاندار مسجد تعمیر کی جائے۔

۷۸۴ءگرجے کی پرانی جگہ پر مسجد قرطبہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ آنے والے اموی خلیفہ وقفے وقفے سے مسجد قرطبہ کی تعمیر، تزئین و آرائش کرتے رہے۔

یہ تقریباً ۹۸۷ء میں مکمل ہوئی۔ یوں عبدالرحمن اول الداخل نے اُندلس میں اسلامی فن تعمیر کے نادر شاہکار، جامع مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھی جس کی چوڑائی ایک سو پچاس اور لمبائی دو سو بیس میٹر کے قریب تھی۔

مسجد اتنی بڑی تھی کہ اگر کوئی دور سے دیکھتا، تو اس کی آخری حد نظر نہ آتی ۔

مسجد کے صحن میں بہت ہی خوبصورت فوارے نصب کیے گئے۔ مسجد کی چھت تیس فٹ کی بلندی پر تعمیر کی گئی جس سے ہوا اور روشنی کا بہتر نکاس ممکن ہو سکا۔

چھت کو سہارا دینے کے لیے کئی ستون تعمیر کیے گئے۔

مسجد کے مرکزی ہال میں ایک بہت بڑا فانوس نصب کیا گیا جس میں بیک وقت ایک ہزار چراغ روشن ہوتے۔ مسجد میں روشنی کا انتظام اس قدر بہتر تھا کہ رات کے وقت بھی دن کا گماں ہوتا۔

 

یہ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے، جسے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ یہ مسجد دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے ہر سال ۱۴لاکھ سے زائد سیاح اسپین آتے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ صدیوں سے یہ مسجد اپنے امام اور مقتدیوں کی منتظر ہے۔ اندلس میں مسلمانوں کو زوال آیا تو دوسری مساجد کی طرح مسجد قرطبہ بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آ گئی اورمسلمانوں کے لیے مسجد میں اذان دینے اور نماز کی ادائیگی پر آج بھی پابندی عائد ہے۔

۱۹۳۱ء میں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ وہ پہلے مسلمان تھے جنھوں نے آٹھ سو سال بعد قرطبہ کی جامع مسجد میں پابندی کے باوجود اذان دی، نماز ادا کی اور مسجد قرطبہ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم بھی لکھی۔ مگر ان کے بعد مسجد پر پھر اُسی خاموشی کا راج ہے۔

 

 

gohar shad mosque

مسجد گوہر شاد (مشہد، ایران)

گوہر شاد مسجد ایران کے صوبہ خراسان کے شہر مشہد کی ایک معروف مسلم عبادت گاہ ہے۔

یہ مسجد تیموری سلطنت کے دوسرے فرمانروا شاہ رخ تیموری کی اہلیہ گوہر شاد کے حکم پر 1418ء میں تعمیر کی گئی اور اسے اس وقت کے معروف ماہر تعمیر غوام الدین شیرازی نے تعمیر کیا جو تیموری عہد کی کئی عظیم الشان تعمیرات کے معمار بھی ہیں۔

صفوی اور قاچار دور میں اس مسجد میں تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا۔

مسجد میں 4 ایوان اور 50 ضرب 55 میٹر کا ایک وسیع صحن ہے۔

مسجد کا گنبد 1911ء میں روسی افواج کی گولہ باری سے شدید متاثر ہوا۔

یہ مسجد 15 ویں صدی کی ایرانی تعمیرات کا اولین اور اب تک محفوظ شاہکار ہے۔

اس کے داخلی راستے میں سمرقندی انداز کی محراب در محراب ہیں جبکہ بلند مینار بھی اس کی شان و شوکت کو مزید بڑھاتے ہیں۔

گوہر شاد مسجد کا اندرونی حصہ ایرانی کاریگروں کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 

nasir ul mulk mosque shiraz

ناصر الملک مسجد (ایران )

مساجد عموماً نماز کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوتی ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مساجد کئی اور حوالوں سے بھی اہم ہیں مثلاًمسلمانوں کے اجتماع کے لئے، تعلیمی مقاصد کے لئے ،حتیٰ کہ مسالمانوں کے ابتدائی زمانے میں مساجد غیر ممالک سے آنے والے وفود سے ملاقات اور تبادلہ خیال کے لئے بھی استعمال ہوتی تھیں ۔

اسی طرح دنیا کےبیشتر ممالک میں کئی ایسی بھی مساجد موجود ہیں جو خوبصورتی اور فنِ تعمیر کا شاہکار مانی جاتی ہیں جن میں سے ایک ایران کی ناصرالملک مسجد بھی شامل ہے۔

ایران کے خوبصورت شہر شیراز میں قائم یہ مسجد ایک تاریخی عمارت ہے جسے 1888 میں قائم کیا گیا تھا۔ اسے مرزا حسن علی ناصر الملک نے قائم کیا تھا۔

اس خوبصورت مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی اندرونی تزئین و آرائش میں رنگین شیشوں کا استعمال ہوا ہےجو کہ مسجد کو دوسری مساجد سے ممتاز بناتی ہے۔

مسجد ناصر الملک کے کئی اور نام بھی ہیں جیسے کہ گلابی مسجد اور رنگوں کی مسجد اس مسجد کی خا ص بات اس میں نصب خوبصورت رنگوں کے شیشے ہیں کو سورج کی روشنی میں پریوں کی کہانی کا نظارہ ہیش کرتی ہیں۔