مشال کا قتل: قومی اسمبلی کی متفقہ مذمتی قرارداد‘ سپریم کورٹ میں آج سماعت ہو گی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 19, 2017 | 07:02 صبح

مردان/ اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مردان یونیورسٹی واقعہ کیخلاف قومی اسمبلی نے متفقہ مذمتی قرارداد منظور کر لی ہے جبکہ آئی جی خیبر پی کے نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ افسوسناک واقعہ میں ملوث مشتعل افراد کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آ گئی ہے جس میں وہ مشال کے قاتلوں کے نام نہ بتانے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے کیس فوجی عدالت میں بھیجنے کی سفارش کی ہے۔ قومی اسمبلی میں قرارداد وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا توہین مذہب کے قانون

کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ہجوم کے ہاتھوں اس طرح کے جرائم کے واقعات کو روکا جا سکے۔ ایوان وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ مشال خان کے قتل میں ملوث افراد اور اس کے سہولت کاروں سمیت نفرت آمیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے۔ قرارداد میں قانون کو ہاتھ میں لینے اور اس کے نتیجہ میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کرنے والے کی بھی مذمت کی گئی۔ مشال خان قتل کیس آئی جی خیبر پی کے کی جانب سے رپورٹ آر پی او مردان عالم خان شنواری نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس کے ساتھ پوسٹ مارٹم رپورٹ کی کاپی، مشال خان کے دوست عبد اﷲ کا دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کیا گیا بیان ہے جبکہ یونیورسٹی کے ایک اہلکار کا بیان بھی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے12بجکر 52منٹ پر ڈی ایس پی حیدر خان کو فون کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ یونیورسٹی آئیں تاہم انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا واقعہ ہے۔ حیدر خان ایک بجکر پانچ منٹ پر یونیورسٹی پہنچے۔ جب وہ یونیورسٹی پہنچے تو طلبا مشال کے دوست عبداللہ کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ڈی ایس پی نے عبداﷲ کو بچایا جب حیدر خان یونیورسٹی پہنچے اس وقت مشال خان کی حالت تشویشناک تھی اور وہ آخری سانسیں لے رہا تھا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزموں کی نشاندہی کی گئی ہے اور 22 کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ یونیورسٹی کی فیکلٹی کے ارکان اور یونیورسٹی عملہ کو بھی تفتیش میں شامل کیا گیا ہے۔ مشال کے دوست عبداللہ کے مطابق کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ اس سے ناخوش تھی۔ معاملہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے پشاور ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا ہے۔ مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تصدیق کے لیے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے۔ رپورٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مشال خان کے خلاف تحقیقات سے متعلق نوٹیفکیشن پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ یونیورسٹی کو توہین رسالت کی تحقیقات کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اگر اس قسم کا واقعہ ہوا تھا تو انتظامیہ کو پولیس کو رپورٹ کرنی چاہیے تھی۔ دریں اثناء سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے مشال خان کے قتل کا کیس فوجی عدالت بھیجنے کی سفارش کر دی۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا مشال خان کو مارنے والوں کو سخت سزا دینی چاہئے۔ معاملے کو لٹکانے کیلئے جوڈیشل انکوائری بنادی گئی۔ سینٹ کمیٹی نے سوشل میڈیا پر مردان واقعہ کی ویڈیو بلاک کرنے کی سفارش بھی کر دی۔ چیئرمین کمیٹی کے مطابق ہجوم پراسیکیوٹر، انویسٹی گیٹر اور جلاد نہیں بن سکتا، توہین مذہب سے متعلق قانون موجود ہے اس پر عمل ہونا چاہیے۔ توہین مذہب کے جھوٹے الزام پر بھی وہی سزا ہونی چاہئے۔ کمیٹی نے ذمہ داروں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ افسوسناک واقعہ میں ملوث مشتعل افراد کی ویڈیو منظرعام پر آ گئی۔ ویڈیو میں موجود افراد بظاہر حلف اٹھا رہے ہیں جس کے مطابق کوئی شخص گولی مارنے والے کا نام نہیں بتائے گا جس نے گولی مارنے والے کا نام بتایا وہ غداری کا مرتکب ہو گا۔ ذرائع کے مطابق ویڈیو میں تقریر کرنے والا عارف تحریک انصاف کا تحصیل کونسلر اور مشال قتل کیس میں گرفتار افراد میں شامل ہے جس نے جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے ایف آئی آر کٹوانی ہے تو وہ میرے خلاف درج کرائے۔ ہجوم میں شامل افراد ایک دوسرے کو مبارکباد بھی دے رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق حلف عارف نے ہی لیا۔چیف جسٹس نے مشال خان قتل کیس کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کیس کو آج سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیدیا۔ ایڈووکیٹ جنرل اور آئی جی خیبر پی کے عبدالولی خان یونیورسٹی کے رجسٹرار کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔