میں بڑالیڈراور ایم کیوایم کی لیڈری۔۔۔میرے شایان شان نہیں
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع نومبر 15, 2016 | 18:44 شام
کراچی (مانیٹرنگ)سابق صدر اور ریٹائر جنرل پرویز مشرف نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میں شامل ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے واضح کردیا کہ ان کی ہمدردیاں مہاجروں کے ساتھ ہیں تاہم ایم کیو ایم کیلئے نہیں ہیں۔
ڈان نیوز کے پروگرام نیوز وائس میں گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ خالد مقبول سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور خواجہ اظہار سے ملاقات بھی اتفاقیہ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے صدر رہے ہیں ایک علاقائی جماعت تک خود کو کیسے محدود کرسکتے ہیں۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ ان کے دورمیں متحدہ کے را سے تعلقات نہیں تھے اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ انھوں نے کراچی میں امن قائم کیا اور ڈاکوؤں سے شہر کی ترقی کا کام لیا۔
سابق صدر نے ملک میں تیسری سیاسی قوت کے قیام کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے باریاں لیکر ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔
وطن واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر پرویز مشرف نے آئندہ الیکشن سے پہلے وطن واپسی کا اعلان کردیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا کوئی آف شور اکاؤنٹ نہیں اورنہ ہی کبھی ملک سے پیسہ باہر بھجوایا، 'جب ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تو انہیں نااہل کیسے قرار دیا گیا'۔
ایک سوال کے جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ پاناما لیکس کیس میں نواز شریف نااہل ہوسکتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر پر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کو روکنے کے لیے بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوگا۔
جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے
سابق صدر نے آئندہ آنے والے آرمی چیف کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر زور دیا کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جانی چاہیے اور انھیں چاہیے کہ وہ اس قبول کرلیں۔
سابق صدر نے دعوی کیا فوج اور حکومت کے تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ نواز شریف کو ہر دورمیں آرمی سے اُلجھنے کی عادت رہی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز ایک غیر مقبول تنظیم کی جانب سے کراچی میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیان اتحاد سے متعلق بینرز آویزاں کیے گئے، جن میں پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی قیادت فاروق ستار اور پرویز مشرف کو دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
غیر مقبول سیاسی جماعت متحدہ قومی جرگہ پاکستان کے نام سے نامعلوم افراد کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کے مضبوط گڑھ ضلع وسطی میں بھی پرویز مشرف کی حمایت میں بینرز لگائے گئے۔
اس سے قبل 9 نومبر 2016 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے سابق صدر پرویز مشرف کو قائد کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کو افواہیں قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
ایم کیو ایم نے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے رکن اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن اور پرویز مشرف کی ملاقات کے حوالے سے ہونے والی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے انتہائی قریبی ساتھی احمد رضا قصوری نے کہا کہ کراچی پاکستانی کا معاشی حب ہے جو ملک کا 60 فیصد ریونیو بھی پیدا کرتا ہے اس میں موجود ایک پارٹی کو جس کو یہاں اکثریت حاصل ہے 'کیسے ختم کیا جاسکتا ہے'۔
انھوں نے ایم کیو ایم میں مائنس ون فارمولے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کو بچانے اور قومی دھارے میں لانے کیلئے انھوں نے ایک 'پلس ون فارمولہ' دیا ہے جس کے مطابق ایم کیو ایم میں موجود تخریب کار عناصر کو نکال کر اس کو بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے اور اس سب کیلئے 'اس میں صرف ایک شخص کا اضافہ کرنا ہوگا'۔
22 اگست کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے کارکنوں سے خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس پر کارکنوں نے مشتعل ہوکر نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا تھا۔
اسی روز الطاف حسین نے امریکا میں بھی کارکنان سے خطاب کیا تھا، جس کی آڈیو کلپ انٹرنیٹ پر سامنے آئی جس میں الطاف حسین نے کہا کہ 'امریکا، اسرائیل ساتھ دے تو داعش، القاعدہ اور طالبان پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے خود لڑنے کے لیے جاؤں گا'۔
بعدازاں 23 اگست کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے تمام فیصلے پاکستان میں کرنے کا اعلان کیا، بعدازاں پارٹی کی جانب سے اپنے بانی اور قائد سے قطع تعلقی کا بھی اعلان کردیا گیا اور ترمیم کرکے تحریک کے بانی الطاف حسین کا نام پارٹی کے آئین اور جھنڈے سے بھی نکال دیا گیا، اسی روز سے ڈاکٹر فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ کی سربراہی سنبھال لی تھی۔