موسیقی کو حرام قرار دینے والے معروف سکالر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 12, 2017 | 18:13 شام

سری نگر(مانیٹرنگ)مذہبی حلقوں میں موسیقی کی حِلت اور حُرمت کی بحث کوئی نئی بات نہیں لیکن موسیقی کو مطلق حرام ٹھہرانے والے ہی جب ڈھول کی تھاپ اور بینڈ کے دھنوں پر رقص کرنے لگیں تو حیرت فطری بات ہے۔ کچھ ایسا ہی واقعہ مقبوضہ  کشمیر کے ایک سرکردہ عالم دین کا ہے، جن کی وجہ شہرت ہی موسیقی کو حرام قرار دینے کے ایک فتوے سے تھی، لیکن موصوف  خود بھی ایک متنازعہ موسیقی بینڈ کی ساز و آواز پر جھومتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جس کے بعد سماجی، عوامی اور مذہبی حلقوں میں ا

یک نئی بحث بھی شروع ہو گئی ہے۔ علامہ بشیرالدین احمد مقبوضہ کشمیر کے سرکردہ علماء اور مفتیان دین متین میں شمار ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کےعالمی سرچ انجن “گوگل” پر اُنہیں تلاش کیا جائے تو ان کا نام لکھتے ہی پہلا نتیجہ ان کے ایک فتوے کا سامنے آتا ہے، جو انہوں نے  جاری کیا تھا۔ اس فتوے میں انہوں نے نہ صرف موسیقی کو حرام اور گناہ قرار دیا بلکہ کئی موسیقی پرسخت تنقید کرتے ہوئے انہیں ‘گمراہ’ تک کے القابات دیے ۔ انہی میں “پرگاش بینڈ” کا نام بھی شامل ہے۔ کشمیرمیں منعقدہ ایک محفل موسیقی کی ویڈیو سماجی رابطے کی ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ “یو ٹیوب” پر تیزی سے مقبول ہونا شروع ہوئی ہے، جس میں علامہ بشیرالدین کو متنازعہ “پرگاش بینڈ” کے موسیقاروں کے جھرمٹ میں بیٹھے”راک اینڈ رول” موسیقی سے لطف اٹھاتے دکھایا گیا ہے۔یہاں یہ امر واضح رہے کہ مفتی بشیرالدین نے موسیقی کی حرمت سے متعلق فتوے میں”پرگاش بینڈ” کی موسیقی کو بھی حرام قرار دیا تھا۔ ویڈیو میں علامہ صاحب کے پہلو میں ایک خاتون کو جلوہ افروز دیکھا جا سکتا ہے جو کہ ان کی اہلیہ نہیں بلکہ محفل میں شریک کوئی غیرمحرم خاتون ہی ہیں۔خیال رہے کہ “پرگاش بینڈ” یا “صبح نو” نامی بینڈ وادی کشمیر کا ایک مشہور موسیقی گروپ ہے جو تین خواتین ارکان پر مشتمل ہے۔ علامہ بشیرالدین نےاپنے فتوے میں قراردیا تھا کہ “ویسے موسیقی کی تمام شکلیں حرام ہیں لیکن ایسی موسیقی کی توقطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں جس میں خواتین شامل ہوں۔ ان کے اس فتوے کے بعد وادی میں”پرگاش بینڈ” کی سرگرمیاں بند کردی گئی تھیں۔تاہم ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ صاحب کے اس فتوے کا اطلاق خود ان کی ذات پرنہیں ہوتا۔ وہ خود ایسی کسی بھی محفل میں جا سکتے ہیں۔