گرما گرمی سے شروع ہونیوالا قومی اسمبلی کا اجلاس پرامن طور پر کل تک ملتوی۔سعد رفیق کی معذرت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 15, 2016 | 17:31 شام

 

اسلام آباد(مانیٹرنگ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ وزیراعظم ایوان میں آکر اگر یہ کہہ دیں کہ قطری شہزادے کا خط غلط فہمی پر مبنی تھا تو تحریک استحقاق کا معاملہ ختم ہوجائے گا اور ایوان کی کارروائی آگے بڑھ سکے گی۔

شاہ محمود قریشی نے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے ارکان کو غنڈے کہنے پر معافی مانگیں اور اپنے الفاظ واپس لیں بصورت دیگر انہیں خطاب کرنے نہیں دیا

جائے گا۔

بعد ازاں خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب میں وضاحت کی کہ ’میں نے لفظ غنڈے نہیں بلکہ غنڈہ گردی استعمال کیا تاہم پھر بھی میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اور اگر اپوزیشن کی دل آزاری ہوئی تو معذرت خواہ ہوں‘۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کی جانب سے ہمارے قائد کے بارے میں بھی جو نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے ان پر بھی معافی مانگی جائے اور الفاظ واپس لیے جائیں‘۔

شاہ محمود قریشی نے الفاظ واپس لینے پر سعد رفیق کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’میں توقع کرتا ہوں کہ وزیراعظم پیر کو ایوان کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور وضاحت پیش کردیں گے‘۔

اس کے بعد اسپیکر سردار ایاز صادق نے اجلاس کی کارروائی جمعے کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اپوزیشن کی ہنگامہ آرئی کے بعد ملتوی ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو مقررہ وقت سے دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔

اجلاس شروع ہوتے ہی دوبارہ بدنظمی کا شکار ہوگیا اور اس بار حکومتی بینچوں پر بیٹھے ارکان نے شور شرابہ شروع کیا۔

پہلے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے مختصر خطاب کیا جس کے بعد خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کو بات کرنے کی اجازت دینے پر آمدگی ظاہر کی۔

پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کا خطاب شروع ہوتے ہی حکومتی ارکان نے نعرے بازی شروع کردی جس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی کو کئی بار تقریر روکنی پڑی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’اگر کل خورشید شاہ کے خطاب کے بعد مجھے بھی 10 منٹ دیے جاتے تو میں اپنی پارٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک استحقاق پر اپنا نکتہ نظر بیان کرتا‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت وسعت قلب کا مظاہرہ کرتی ہے جو بدقسمتی سے گزشتہ روز نظر نہیں آیا، جو رویہ آج اپنایا گیا وہ کل ظاہر کیا جاتا تو ہنگامہ نہ ہوتا۔

پی ٹی آئی کے غنڈے

شاہ محمود قریشی نے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز سعد رفیق نے ہمارے احتجاج کو غنڈہ گردی کہا گیا، یہ ریکارڈ پر ہے اور خبروں میں بھی یہی کچھ بھرا پڑا ہے۔

اس پر اسپیکر نے کہا کہ اگر ایسا لفظ ایوان میں استعمال ہوا تو وہ لفظ ’غنڈے‘ کو اجلاس کی کارروائی سے حذف کرادیں گے۔

تاہم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب تک خواجہ سعد رفیق اس بات پر معافی نہیں مانگتے اور اپنے الفاظ واپس نہیں لیتے وہ انہیں خطاب نہیں کرنے دیں گے۔

شاہ محمود نے کہا کہ ’آپ ریلوے میں خوفناک حادثوں کے عادی ہوچکے ہیں تاہم اگر یہ بدسلوکی جاری رہی تو پارلیمانی حادثہ بھی ہوجائے گا جو کسی نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا‘۔

پی ٹی آئی رہنما نے اپنی تحریک استحقاق کے حوالے سے کہا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی بھی اسی طرح کی تحریک پیش کرنے والی ہے حالانکہ گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ کے درمیان اجلاس سے قبل ملاقات ہوئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی تحریک استحقاق کو سنے بغیر ہی مسترد کردیا گیا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ’آپ ہمیں سنے بغیر کیسے فیصلہ صادر کرسکتے ہیں، سینیٹر اعتزاز احسن نے ٹی وی پر کہا کہ ہم نے جو تحریک پیش کی وہ معاملہ زیر سماعت نہیں تھا‘۔

شاہ محمود نے کہا کہ ’ہم نے پاناما گیٹ کی بات نہیں کی ہم نے تو نواز شرف کی جانب سے ایوان میں بولے گئے جھوٹ کا ذکر کیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنی تحریک استحقاق میں صرف یہ سوال اٹھایا تھا کہ ’آیا نواز شریف نے جو ایوان میں کہا وہ سچ تھا یا جو موقف انہوں نے عدالت میں اپنایا وہ سچ ہے‘۔

آخر میں شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی کی جانب سے دو مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سعد رفیق ’غنڈے‘ کا لفظ استعمال کرنے پر معافی مانگ لیں اور وزیراعظم ایوان میں آئیں اور وضاحت کردیں کہ جو انہوں نے ایوان میں کہا وہ من و عن درست تھا، واقعتاً گلف اسٹیل مل فروخت ہوئی اور پیسہ جدہ اور دبئی گیا اور واقعتاً اس سے مے فیئر فلیٹس خریدے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم ایوان میں آکر یہ کہہ دیں کہ قطری شہزادے کا جو خط تھا وہ غلط فہمی پر مبنی تھا تو معاملہ سدھر جائے گا‘۔

شاہ محمود نے کہا کہ اگر وزیراعظم آکر یہ کہہ دیتے ہیں تو ایوان میں وضاحت ہوجائے گی اور معاملہ آگے چل پڑے گا۔

پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود اسپیکر ایاز صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سوال یہ ہے کہ وہ شخص جو آپ کو جناب اسپیکر کہہ کر مخاطب کرتا رہا یہ نوبت کیوں آئی کہ مجھے اسپیکر کو جناب ایاز صادق کیوں کہنا پڑا، ذرا اس پر ذرا ٹھنڈے دماغ سے غور کیچیئے گا‘۔

شاہ محمود نے کہا کہ ’میں توقع کرتا ہوں کہ اسپیکر اقلیتوں اور اپوزیشن کے حقوق کا تحفظ کرے گا، میں اکیلا ضرور ہوں، میری آواز کمزور بھی ہوسکتی ہے لیکن میں 80 لاکھ ووٹرز کا ترجمان ہوں‘۔

خطاب کے دوران بار بار حکومتی ارکان نعرے لگاتے رہے جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر خاموشی نہ ہوئی تو وہ بیٹھ جائیں گے۔

اسپیکر سردار ایاز صادق حکومتی ارکان کو خاموش کراتے رہے اور شاہ محمود قریشی کو تقریر جاری رکھنے کا کہتے رہے۔

 

وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق پارلیمنٹ سے خطاب کررہے ہیں

 

خواجہ سعد رفیق نے پاناما پیپرز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ بن سکتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ سپریم کورٹ بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم مل بیٹھ کر یہ طے کرسکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں پاناما پیپرز کے معاملے پر کس طرح بحث کرسکتے ہیں‘۔

سعد رفیق نے کہا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ آپ (پی ٹی آئی) عدالت میں جائیں گے یہی وجہ تھی کہ ہم نے ارکان پارلیمنٹ کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے بیان جاری کیا‘۔

پی ٹی آئی کے حوالے سے سعد رفیق نے کہا کہ ’ہم عدالت نہیں گئے آپ گئے، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام واپس لیں گے لیکن یہ ثابت ہونے کے باوجود آپ نے الزامات واپس نہیں لیے‘۔

وزیر ریلوے نے کہا کہ ’پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے تمام ناموں کو پس پشٹ ڈال کر صرف وزیر اعظم کو نمایاں کردیا گیا‘۔

انہوں نے کہا کہ اب حکومت پاناما پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

سعد رفیق نے کہا کہ ہم 2018 کے انتخابات میں پاناما پیپرز کی چھاپ لے کر نہیں جانا چاہتے، ہم خود اس کا فیصلہ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’آپ نے ہمیشہ الزامات عائد کیے لیکن کبھی ثبوت فراہم نہیں کیے‘۔

قبل ازیں سعد رفیق نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز اجلاس میں جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم قائد حزب اختلاف ہم سب کے لیے قابل احترام ہیں، ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کو موقع بھی دینا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپوزیشن کی آواز دبانا نہ ہمارا کبھی ہمارا مقصد تھا نہ کبھی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ پاناما لیکس سمیت ہر معاملے پر مل بیٹھ کر جتنی دیر چاہیں بات کرسکتے ہیں۔

سعد رفیق نے کہا کہ ہمارا نقطہ نظر یہی ہے کہ اگر پہلے اپوزیشن بات کرے تو اس کے بعد حکومت کو موقع ملنا چاہیے اور اگر پہلے حکومت بات کرے تو پھر اپوزیشن کو موقع ملنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر گزشتہ روز ہنگامہ کرنے کے بجائے ہمارا حق تسلیم کرتے ہوئے درخواست کی جاتی تو ہم خود ہی اپوزیشن کو مزید بولنے کی اجازت دے دیتے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان بحث اور ہنگارمی آرائی کی نذر ہوگیا تھا جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی جمعرات کی شام 4 بجے تک ملتوی کردی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے گزشتہ روز علیحدہ علیحدہ تحریک استحقاق جمع کرائی تھیں جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے اثاثوں کے حوالے سے ایوان میں جو خطاب کیا اس میں تضاد تھا لہٰذا انہوں نے ارکان کو گمراہ کیا تاہم اسپیکر نے ان تحریکوں کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے۔

اجلاس کے کسی ایجنڈے پر عمل نہیں ہوا

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے 38 ویں اجلاس کے دوسرے روز کسی بھی ایجنڈے پر بات نہیں کی گئی۔

فافین کے مطابق ایجنڈے میں تین بلز، قائمہ کمیٹیوں کی تین رپورٹس، دو کالنگ اٹینشن نوٹسز اور قومی مالیاتی ایوارڈ پر عمل درآمد کے حوالے سے ششماہی مانیٹرنگ رپورٹ بھی پیش کی جانی تھی۔

فافین کے مطابق جمعرات کو 118 ارکان اسمبلی (35 فیصد) موجود تھے جبکہ اجلاس دوگھنٹے ایک منٹ تک جاری رہا۔