قومی اسمبلی میں خواتین ارکان کی سیٹیں: ایک اور مطالبہ کر دیا گیا
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع جنوری 15, 2017 | 05:58 صبح
لاہور (ویب ڈیسک)خواتین کے حقوق کے حوالے سے قائم قومی کمیشن نے حکومتِ پاکستان کو تجویز دی ہے کہ پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے مختص سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ہفتہ کو نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن نے یہ تجاویز پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کو بھیجیں۔کمیشن کی چیئر پرسن خاور ممتاز نے بتایا کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی نے اصلاحات کے لیے قانون کا دوسرا مسودہ شائع کیا ہے اور اس پر کمیشن سے تجاویز طلب کی ہیں۔کمیشن کی سربراہ خاور ممتاز کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں کمیشن کی کمیٹی برائے قانون اور پالیسی نے انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی عبوری رپورٹ کا جائزہ لیا تھا۔
خاور ممتاز نے بتایا کہ تجاویز میں اس بات کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ کسی بھی انتخاب کو جائز قرار دینے کے لیے ووٹروں کی تعداد میں دس فیصد خواتین کا ہونا لازمی کر دیا جائے۔خاور ممتاز کے مطابق کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ہر جماعت کو کم از کم دس فیصد ٹکٹیں خواتین کو دینی چاہیئیں اور اپنی ہر فیصلہ ساز کمیٹی میں 33 فیصد حصہ خواتین کے لیے مختص کرنا چاہیے۔پارلیمان میں مختص سیٹوں پر آنے والے قانون سازوں کے حوالے سے ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ ایسے اراکین کی اپنے حلقوں میں حقیقی یا نچلی سطح پر مقبولیت انتہائی کم ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اہم قانون ساز نہیں بن پاتے۔
خاور ممتاز نے بتایا کہ کمیشن کی تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے ریزروو سیٹ پر ایک ہی خاتون آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس شرط کی وجہ سے ملک کے وسیع تر حصے کی خواتین کی ملکی سیاست کے مرکزی دھارے میں شمولیت ممکن ہو سکے گی۔مختص سیٹوں کے حوالے سے پاکستان میں ماضی میں ایک رجحان یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ریزروو سیٹوں پر سیاسی جماعت کے سربراہ یا با اثر افراد کے خاندان کے لوگوں کو پارلیمنٹ کا رکن بنا دیا جاتا ہے۔ مختص سیٹیں بڑھانے سے کیا اس رجحان میں اضافہ نہیں ہوگا؟