قومی اسمبلی میں سب سے پہلی خونی لڑائی :سپیکر قومی اسمبلی کی جھگڑے کے دوران ہلاکت کا افسوسناک واقعہ جس کا ملزم آج بھی دندناتا پھرتا ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 28, 2017 | 07:30 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) گزشتہ روز قومی اسمبلی میں معزز ارکان کی لڑائی نے پاکستانیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ، بالخصوص نوجوان شہریوں کی اکثریت نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ پاکستان کی اسمبلی کو میدان جنگ بنا دیکھا لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ دنیا کے مہذب ترین ممالک میں بھی اسمبلی میں ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ عرصہ پہلے تک یہ روایت قائم تھی تاہم اس حوالے سے پارلیمانی تاریخ کا سب سے افسوسناک واقعہ 21 ستمبر 1958 کو پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں مش

رقی پاکستان کی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کو اسمبلی میں ہونے والے ہنگامے کے باعث جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

متحدہ پاکستان میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش ) کی اسمبلی سے تعلق رکھنے والے 6 حکومتی ارکان کے پاس پر کشش سرکاری عہدے بھی تھے جس کے باعث سپیکر عبدالحکیم نے 21 ستمبر 1958 کو خصوصی رولنگ کے ذریعے ان ارکان کی رکنیت معطل کردی۔ حکومتی ارکان کی رکنیت معطل کیے جانے کے بعد حکومتی ارکان پیپر ویٹ اور پردوں کے ڈنڈے اکھاڑ کر سپیکر کی طرف لپکے تاہم وہ تھوڑی سی پٹائی کے بعد بروقت اسمبلی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ سپیکر کے فرار ہونے کے بعد اجلاس چلانے کی ذمہ داری ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری نے سنبھالی ۔ معطل کیے جانے والے حکومتی ارکان کی جانب سے سپیکر عبدالحکیم کو پاگل قرار دینے کیلئے اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی گئی جو ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری نے فوری طور پر منظور کرلی۔

قرار داد منظور ہونے کے بعد اپوزیشن ارکان شدید مشتعل ہوگئے اور مائیکروفون اکھاڑ کر سپیکر ڈائس پر چڑھ گئے اور شاہد علی پٹواری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے ۔ یہ افسوسناک واقعہ 21 ستمبر 1958 کو پیش آیا تھا جس کے 2 روز بعد ہی ڈپٹی سپیکر مشرقی پاکستان اسمبلی شاہد علی پٹواری زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں ہی دم توڑ گئے۔ نوائے وقت کے سینئر کالم نویس فضل حسین اعوان کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں ہونے والے ہنگامے میں شاہد علی پٹواری تو جان کی بازی ہار گئے تھے تاہم سارے مسئلے کی جڑ بننے والے سپیکر عبدالحکیم آج بھی زندہ ہیں۔

صلاح الدین احمد کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب ” بنگلہ دیش، پاسٹ اینڈ پریزنٹ“ (بنگلہ دیش، ماضی اور حال) میں بھی اس واقعے کا تذکرہ ملتا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے انتقال کے بعد 23 ستمبر کو پولیس نے سپیکر عبدالحکیم کو حکومتی و اپوزیشن ارکان میں غم و غصہ کو بھانپتے ہوئے سپیکر چیمبر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ 24 ستمبر کو پولیس نے شاہد پٹواری کے قتل کے الزام میں ابو حسین سرکار سمیت دیگر اپوزیشن ارکان اسمبلی کو حراست میں لے لیا جس کے بعد صدر سکندر مرزا نے مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی حکومت ختم کردی اور اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا۔

اسمبلی کے ہنگامے میں جان کی بازی ہارنے والے شاہد علی پٹواری پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے ، انہوں نے 30 سال کی عمر میں 1929 میں شیر بنگال فضل حق کی پارٹی کریشک پرجا پارٹی جوائن کی ۔ وہ 1955 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت تھی اور شاہد علی پٹواری اس حکومت کی اتحادی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔
واضح رہے کہ جمعرات کے روز پاکستان کی قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن اور اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی میں ہاتھا پائی ہوئی تھی اور چند اراکین اسمبلی کو مکے اور تھپڑ بھی لگے تھے۔(بشکریہ روزنامہ پاکستان )