چیئرمین نیب بھی لٹیروں کی وکالت کرنے لگے،کرپشن کے پیسوں سے حصہ وصول کر کے ملزم کی بریت کو حکمت قرار دیتے ہیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 27, 2016 | 04:39 صبح

 

اسلام آباد (مانیٹرنگ) چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے پر عزم ہے پلی بارگین کا مقصد عوام کی لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کے ساتھ ساتھ لٹیروں کی معافی نہیں، کئی ملکوں میں پلی بارگین قانون موجود ہے، نیب قانون کے تحت کام کررہا ہے، قانون پارلیمنٹ بناتی ہے، اس میں ترمیم کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس ہے، نیب قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں کررہا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پلی بارگین ایک سزا ہے جس میں ملزم صرف جیل نہیں جاتا سزا کے تمام لوازمات اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگر کرپشن میں ملوث کوئی سرکاری ملازم پلی بارگین کرتا ہے تو اسے سرکاری ملازمت سے ڈسمس کردیا جاتا ہے اور وہ ساری عمر سرکاری ملازمت نہیں کرسکتا اگر کوئی منتخب عوامی نمائندہ کرپشن کے الزام میں نیب سے پلی بارگین کرتا ہے تو وہ دس سال کیلئے نااہل ہوجاتا ہے اور آئندہ کوئی الیکشن نہیں لڑ سکتا اور کوئی کاروباری شخص پلی بارگین کرتا ہے تو وہ بنک سے کوئی لین دین نہیں کرسکتا اور وہ کوئی اکائونٹ نہیں کھلوا سکتا۔ جہاں تک بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور مشیر خزانہ خالد لانگو کے کیسز کا تعلق ہے انہوں نے انکوائری کے دوران رقم کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست دی، رضاکارانہ واپسی سکیم کے ذریعے کسی کو سزا نہیں ملتی نیب نے ان کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔ تاہم اگلے مرحلے میں ان کی پلی بارگین کی درخواست منظور کی گئی۔ چیئرمین نیب کو قانون کے تحت پلی بارگین کی درخواست منظور کرنے کا اختیار ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ متعلقہ عدالت کرتی ہے۔ اس کیس میں مشیر خزانہ اور دوسرے ملزموں کے خلاف تحقیقات کے حتمی مرحلے میں ہیں۔ان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ چلے گا ان کے اکائونٹس منجمد ہیں۔ مشتاق رئیسانی کے مکان سے65 کروڑ 32 لاکھ روپے نقد اور3 کلو سونا ملا تھا جبکہ کوئٹہ میں 6 کروڑ روپے مالیت کا مکان اور ڈی ایچ اے کراچی میں7 کروڑ روپے مالیت کی جائیداد نیب نے قبضہ میں لی ہے جبکہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ سے نیب نے ایک ارب روپے کی ریکوری کی ہے، قمر زمان چوہدری نے کہا کہ نیب بلوچستان کے مستعداور نوجوان افسروں نے اربوں روپے کی لوٹ مار کا کیسے پتہ چلایا اور کیسے قومی خزانہ لوٹا یہ ایک دلچسپ داستان ہے صوبے کے726 بلدیاتی اداروں کو شہری سہولتوں کی فراہمی کیلئے 2015-16ء کے بجٹ میں6 ارب روپے دیئے گئے یہ رقم ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن 5 میونسپل کارپوریشنز53 میونسپل کمیٹیوں اور 635 یونین کونسلوں کیلئے مختص ہوئی تھی لیکن مشیر خزانہ نے ترقیاتی بجٹ میں بلدیاتی اداروں کیلئے مختص6 ارب روپے کی ساری رقم میونسپل کمیٹی خالق آباد اور میونسپل کمیٹی مچھ کیلئے مختص کردی اور ابتدا میں 2 ارب31 کروڑ روپے دونوں بلدیاتی اداروں کیلئے منتقل کئے گئے اس مقصد کیلئے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور ایڈمنسٹریٹر سلیم شاہ کو استعمال کیا گیا۔2 ارب 31 کروڑ روپے ایڈمنسٹریٹر / چیف آفیسر سلیم شاہ کے ذاتی اکائونٹ میں منتقل کئے گئے اسی طرح محکمہ بلدیات کو مکمل طور پر بائی پاس کیا گیا دو میونسپل کمیٹیوں کیلئے2 ارب31 کروڑ روپے مختص کئے گئے اس میں سے 2 ارب 24 کروڑ روپے انہوں نے خورد برد کرلئے اور یہ رقم چار افراد میں تقسیم کردی گئی جس میں مشیر خزانہ کا فرنٹ مین سہیل مجید شاہ اس کا بھائی ایڈمنسٹریٹر/ چیف آفیسر مچھ وخالق آباد،میونسپلز اور سیکرٹری خزانہ شامل تھے نیب کو قومی خزانے کی لوٹ مار کی سب سے پہلی اطلاع ایک معتبر قومی انٹیلی جنس ادارے کے ذریعے ملی جس پر نیب نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں اور ملزموں کی مکمل نگرانی کی گئی۔ نیب نے گرفتار کیا تو اس نے تصدیق کردی کہ رقم 10 بے نامی اور دیگر اکائونٹس میں منتقل کی گئی سلیم شاہ نے لوٹی گئی رقم،ڈی ایچ اے کراچی اور دیگر 11 جائیدادیں سرنڈر کردیں جن کی مالیت ایک ارب روپے سے زیادہ ہے۔ سلیم شاہ کے ذریعے ہی فرنٹ مین سہیل مجید شاہ کو رقوم ٹرانسفر ہوئیں اور ہر مرتبہ سیکرٹری خزانہ کمیشن اور غیر ملکی کرنسی میں اپنا شیئر وصول کرتے رہے فرنٹ میں سہیل مجید شاہ مشیر خزانہ کیلئے جائیداد کی خریداری کرتے رہے اس کے بدلے میں انہیں ضلع قلات میں تمام سڑکوں اور ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کے ٹھیکے دیئے گئے۔ایکسین(بی اینڈ آر)طارق علی کو جب نیب نے پکڑا تو اس نے انکشاف کیا کہ قلات ضلع کیلئے مشیر خزانہ نے ان کی بھرتی کی تھی اور فرنٹ مین کے ذریعے بھاری کک بیکس وصول کرتے رہے مختلف ٹھیکوں میں ایک کروڑ روپے کا کمیشن وصول کیا میونسپیلٹی خالق آباد کے اکائونٹنٹ ندیم اقبال نے نیب میں گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ انہوں نے بلدیہ کے اکائونٹ سے30 لاکھ روپے کا خورد برد کیا۔ ندیم اقبال فرنٹ مین سہیل شاہ وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ چیئرمین نیب کے موجودہ دور میں رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے ذریعے مجموعی طور پر بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 45 ارب37 کروڑ روپے وصول کئے گئے ہیں نیب کی طرف سے سیکرٹری خزانہ اور مشیر خزانہ کے فرنٹ مین سے پلی بارگین کی 2 ارب روپے کی رقم سٹیٹ بنک کے ذریعے واپس صوبائی خزانے کو لوٹا دی گئی ہے اور اب ملزموں کے خلاف مقدمے عدالتوں میں چلیں گے۔رینٹل پاور منصوبوں میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پلی بارگین،رضاکارانہ واپسی کے قانو ن کے تحت 12ارب روپے رینٹل پاور منصوبوں سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں۔ ادارے کے اندر اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں تاکہ شفافیت اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جاسکے،کرپشن شکایت کی جانچ پڑتال کیلئے دو ماہ،انکوائری کیلئے چارماہ اور تفتیش مکمل کرنے کیلئے بھی چار ماہ کا عرصہ مختص کیا گیا ہے،شکایت سے انکوائری اور انکوائری سے تفتیش تک کے عمل کو مکمل ہونے کیلئے دس ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ نیب کو سال2015کے مقابلے میں سال 2016میں جوشکایات موصول ہوئی ہیں ان کی تعداد گذشتہ سال سے دگنی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام نیب پر اعتما د کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ پلی بارگین سے نیب افسران کو حصہ ملتا ہے جو بھی رقم برآمد ہوتی ہے تمام کی تمام قومی خزانے میں جمع کرادی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کا قانون صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ، بھارت، کینیڈا اور دنیا کے کئی ممالک میں بھی رائج ہے۔ ڈبل شاہ سکینڈل میں 28 ہزار 899 لوگوں نے اپنی خون پسینے کی جمع پونجی لٹا دی،اس سکینڈل میں نیب نے ساڑھے تین ارب روپے کی وصولی کی ہے اور ملزمان کی جائیدادیں اور قیمتی گاڑیاں ضبط کی گئی ہیں اور اب تک 11 ہزار 452 متاثرین کو مکمل ادائیگی کی جاچکی ہے جبکہ 12 ہزار 363 متاثرین کو جزوی رقم واپس کی گئی ہے جو پلی بارگین کے قانون کی ہی بدولت ریکور ہوئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ آصف جاوید اس مولوی ابراہیم کے سکینڈل کے 18ہزار متاثرین ہیں اور سات ارب روپے کا یہ سکینڈل تھا ملزم کو عدالت سے 14سال کی سزا تو دلوادی ہے لیکن متاثرین کو ان کی لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں ہوسکی۔ اسی طرح مضاربہ سکینڈل کے مفتی احسان کو جیل بھجوایا گیا ہے لیکن آٹھ ارب روپے کی رقم ریکور نہیں ہورہی۔