ختم نبوت کا معنی اور مطلب

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 20, 2017 | 17:39 شام

لاہور(حضرت مولانا اللہ وسایا ):اللہ رب العزت نے نبوت کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر فرمائی۔ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں، اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان کا اس پر ایمان رکھتا آیا ہے ۔قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہاور رحمت عالم کی دو سو دس احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔ آنحضرت کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا، جس پر امام

العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ اپنی آخری کتاب ”خاتم النبیین“ میں بحث فرمائی ہے ۔

ترجمہ: ”اور سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا، جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا، اس کی دیگر گھناﺅنی حرکات کا علم صحابہ کرامؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا، جیسا کہ ابن خلدونؒ نے نقل کیا ہے، اس کے بعد قرناً بعد قرنٍ مدعی نبوت کے کفر و ارتداد پر ہمیشہ اجماع بلافصل رہا ہے، اور نبوت تشریعیہ یا غیر تشریعیہ کی کوئی تفصیل کبھی زیر بحث نہیں آئی۔“

(خاتم النبیین ص :۷۶، ترجمہ ص :۷۹۱)

رحمت عالم کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیؓ کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو:

ترجمہ: ”حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ کو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیبؓ بن زید کی جان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔“

آنحضرت وصال فرماچکے تھے، اور حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبوی کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کردی۔ وہاں حضرت عمرؓ موجود تھے ۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمن سے! حضرت ابو مسلمؓ نے جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا: اللہ کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا، اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا، بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو مسلمؓ نے فرمایا: ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست اپنا کام کرچکی تھی، انہوں نے فوراً فرمایا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانیؓ نے جواب دیا: ”جی ہاں!“ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرطِ مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، اور انہیں لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہنچے، انہیں صدیق اکبرؓ کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔“

(حلیة الاولی ج:۲، تہذیب، تاریخ ابن عساکرج:۷)

منصب ختم نبوت کی خصوصیات:

قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ”رب العالمین“ آنحضرت کی ذات اقدس کے لئے ”رحمة للعالمین“ اور بیت اللہ شریف کے لئے ”ھدی للعالمین“ فرمایا گیا ہے۔آنحضرت آخری نبی ہیں، آپ کی امت آخری امت ہے، آپ کا قبلہ آخری قبلہ (بیت اللہ شریف) ہے، آپ پر نازل شدہ کتاب آخری اللہ آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپ کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے پورے کردیئے۔حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ”خصائص الکبریٰ“ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ، آپ ہی کی خصوصیت قرار دیا ہے۔ اسی طرح امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:ترجمہ: ”اور انبیÉ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا، آپ کے مخصوص فضائل و کمالات میں سے خود آپ کا اپنا ذاتی کمال ہے۔“