لڑکیوں کا ڈر کے مارے گھر جانے سے انکار
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 22, 2016 | 18:45 شام
نیروبی (شفق ڈیسک) خواتین کے ختنوں کی جان لیوا روایت اب تک دنیا کے کئی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ کینیا بھی ایسے ملکوں میں سے ایک ہے جہاں اس وقت سینکڑوں لڑکیوں نے ختنوں کے خوف سے گھر جانے سے انکار کر دیا ہے اور اپنے سکولوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان لڑکیوں کو ڈر ہے کہ اگر وہ گھر گئیں تو ان کے والدین زبردستی ان کے ختنے کروا دیں گے۔ کینیا میں ایک ماہ قبل سکولوں میں چھٹیاں ہو چکی ہیں لیکن لڑکیوں کیلئے یہ سکول چھٹیوں کے باوجود کھلے ہیں کیونکہ انہوں نے سکولوں سے نکلنے سے انکار کر دیا ہے۔ انکے علاوہ سینکڑوں لڑکیوں نے مسیحی عبادت گاہوں میں بھی پناہ لے رکھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 14سال ایلیس جیبیٹ کا کہنا ہے کہ ’’اب تک کینیا میں اس رسم کے باقی ہونیکی مالی وجوہات بھی ہیں اور ثقافتی بھی۔ یہاں والدین اپنی بیٹیوں کو اس لئے بھی ختنے کروانے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ وہ جہیز لینا چاہتے ہیں۔ جب لڑکیاں ختنے کرواتی ہیں تو اس سے قبل ہی والدین نے ان کی شادی طے کر رکھی ہوتی ہے۔ ختنوں کے فوراً بعد والدین لڑکیوں کو ان کے شوہروں سے متعارف کرواتے ہیں اور پھر ان شوہروں کے خاندان لڑکیوں کے والدین کو جہیز میں گائیں دیتے ہیں۔ میرے والدین بھی اسی لالچ میں میرے ختنے کروانا چاہتے لیکن میں نے چرچ میں پناہ لے رکھی ہے۔ رپورٹ کیمطابق کینیا میں لڑکیوں کے ختنے 2011ء میں غیر قانونی قرار دیئے جا چکے ہیں لیکن اب بھی ملک کے کئی علاقوں میں یہ رسم پائی جاتی ہے۔ دسمبر کے مہینے میں چونکہ سکولوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں لہٰذا اس عرصے میں بڑے پیمانے پر لڑکے لڑکیوں کے ختنے کئے جاتے ہیں، لیکن اس بار سینکڑوں لڑکیوں نے سکولوں میں ہی پناہ لے رکھی ہے۔