نئے ڈی جی آئی ایس آئی بی بی سی کی نظر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 12, 2016 | 18:17 شام

کراچی(بی بی سی)پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جاری 'ٹارگٹڈ آپریشن' کی کامیابی کا کریڈٹ وفاقی اور حکومت سندھ اپنے طور پر لیتی رہی ہیں لیکن عسکری قیادت اس آپریشن کی قیادت کرنے والے افسران کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرکے اس کا کریڈٹ اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے۔

کراچی کے سابق کور کمانڈر نوید مختار اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز بلال اکبر کی پارٹنرشپ میں دو سال ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہا۔ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی اور لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی چیف آف جنرل سٹاف تعین

اتی سے یہ بھی پیغام ملتا ہے کہ کراچی میں دونوں کے درمیان کوآرڈینیشن کارآمد رہا ہے، جس کو تسلیم کر کے اعلیٰ سطح پر جاری رکھا گیا ہے اور مستقبل میں بھی ملک کی اندرونی سکیورٹی کو اولیت حاصل ہوگی۔

لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سے قبل لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی کراچی کے کور کمانڈر تھے جو ایک غیر معروف شخصیت رہے۔ اس کے برعکس نوید مختار نے اپنی تعیناتی کے کچھ ہی عرصے میں میڈیا اور سیاسی حلقوں کی توجہ حاصل کر لی۔

لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار جس ادارے کے آج سربراہ ہیں اسی ادارے کے کاؤنٹر ٹیرر ازم شعبے کے وہ ڈائریکٹر تھے۔ اس شعبے کا دائرہ کار بلوچستان سے لے کر وزیرستان اور کراچی تک پھیلا ہوا تھا۔ ان علاقوں میں جاری مسلح گروہوں کے تانے بانے عسکری اور سول قیادت بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے جوڑتی رہی ہے۔

پنجاب کے امیر خاندان سے تعلق رکھنے والے نوید مختار نے آرمرڈ کور سے کمیشن حاصل کی۔ اس کے بعد کوئٹہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے گریجوییشن کی۔ وہ امریکہ وار کالج میں بھی زیر تعلیم رہے جہاں انھوں نے 'افغانستان۔ متبادل مستقبل اور اثرات' کے عنوان سے ایک تحقیقی پیپر بھی تحریر کیا۔

اپنے تحقیقی پیپر میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا ماضی، حال اور مستقبل افغانستان سے وابستہ ہے، ایک متحد و مستحکم افغانستان پاکستان کی سکیورٹی اور پالیسی کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

'پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان میں ایک اور مخاصمانہ محاذ روکنے کی کوشش کرے۔ افغانستان انڈیا کی پراکسی وار بن سکتا ہے۔ پاکستان، افغانستان میں انڈیا کے اثرو رسوخ بڑھنے کو قریب سے دیکھے گا اور اس کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات لے سکتا ہے۔'

کراچی میں تعیناتی کے دوران لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے اپنے ہم منصبوں کے برعکس لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کا کردار غیر روایتی اور متحرک رہا۔ وہ حکومت کی بدانتظامی پر کھلی تنقید کرتے رہے۔

اپنی تعیناتی کے صرف چند ماہ بعد ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال غلطیوں اور ناکامیوں کے باعث خراب ہوئی جن میں انتظامی ناکامی اور ناکارہ سیاست شامل ہے۔ یہاں حکومت تو ہے لیکن حکومت کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے۔

وہ صوبائی ایپکس کمیٹی کے فیصلہ ساز رکن تھے۔ کمیٹی کے ایک اجلاس کے بعد رینجرز کی جانب سے اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کراچی میں سالانہ 230 بلین روپے سے زائد رقم غیر قانونی طریقوں سے وصول کی جاتی ہے۔ یہ رقم، زمینوں پر قبضوں، بندرگاہوں سے بھتوں، ایرانی تیل کی سمگلنگ سمیت دیگر ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے، جس کا حصہ ایک اہم سیاسی شخصیت کو پہنچایا جاتا ہے۔

پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ان بیانات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر اُنھیں دیوار سے لگانے اور ان کی کردار کشی کرنے کی روش ترک نہ کی گئی تو وہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جنرلز کے بارے میں وہ کچھ بتائیں گے کہ وہ (فوجی جنرلز) وضاحتیں دیتے پھریں گے۔

یہ وہ ہی دن تھے جب ڈاکٹر عاصم حسین گرفتار کیے گئے اور رینجرز نے بدعنوانی کے معاملات میں بھی تحقیقات کا آغاز کیا اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر سے فائلیں اٹھائی گئیں۔ اس صورتحال کے بعد رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کی تجاویز آئیں جس کی لیفٹیٹننٹ جنرل نوید مختار نے کھل کر مخالفت کی اور قرار دیا تھا کہ کراچی میں امن رینجرز کو دیےگئے خصوصی اختیارات سے ہی ممکن ہو سکے گا۔

لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار شہر کی صورتحال کی غیر روایتی انداز سے بھی معلومات حاصل کرتے۔ وہ شہر کے اہم 'سٹیک ہولڈروں' سے میل میلاپ رکھتے۔ صنعت کار، تاجر، سیاسی شخصیات سے لے کر بعض غیر ملکی مصنف جنھوں نے کراچی پر کتابیں تحریر کیں ان سے ملاقات کرتے تاہم وہ مقامی صحافیوں سے دور رہتے۔

نوید مختار اور بلال اکبر کی تعیناتی کے دنوں میں ہی شہر میں سیاسی اور انتظامی طاقت کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے مارے گئے اور عمارتوں کو سیل کیا گیا جبکہ ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کی قیادت دھڑہ بندی کا شکار ہوگئی۔ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال خود ساختہ روپوشی ختم کرکے منظر عام پر آئے اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پر الزامات عائد کرکے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔

نوید مختار اور بلال اکبر کے کراچی سے تبادلے کے بعد ایم کیو ایم لندن کی قیادت نے ٹیسٹ کے لیے نو دسمبر کو مکہ چوک پر کارکنوں کو اکٹھا کرکے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اس کو اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جو وہ گذشتہ دو سالوں سے دیکھی آرہی ہے۔

کراچی میں کور کمانڈر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے سربراہ بھی ہوتے ہیں۔ نوید مختار کے دور میں سپر ہائی وے پر زیر تعمیر ادارے کے توسیع منصوبے پر کام میں تیزی آئی لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اپنے پیشرو لیفٹیننٹ جنرل غنی کے برعکس ان کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انھوں نے اولیت عسکری فرائض کو دی تھی۔