1965 کی پاک بھارت جنگ میں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے پاک فوج کے جوانوں کے لیے ذاتی خرچ پر کیا چیز تیار کروائی تھی جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اگلے مورچوں پر جوانوں میں تقسیم کی تھی ؟ پڑھیے اس شاندار تاریخی واقعہ میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 09, 2017 | 07:38 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک) معروف علمی  و ادبی شخصیت سید صادق حسین شاہ  اپنی ایک کتاب میں نواب آف کالا  باغ ملک امیر محمد خان کے متعلق لکھتے ہیں ۔۔۔۔ 1965 ء کی جنگ کے دوران جنرل شیر علی واہگہ بارڈر کی نگرانی پر معمور تھے۔ جنرل شیر علی نے ایک آدمی کو پرائیویٹ کپڑوں میں دیکھا کہ وہ مورچوں میں تعینات فوجی جوانوں کے ساتھ مصافحہ کررہا ہے ۔ انہوں نے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے کہا کسی مناسب جگہ پر ہیلی کاپٹر اتارو ان حالا ت میں جب ہر طر

ف سے گولیاں برس رہی ہیں ۔ فضا سے جہاز آگ اگل رہے ہیں ۔ میں بھی جاکر دیکھوں کہ یہ قوم کا ہمدرد کون ہے ؟ جنرل شیر علی نیچے اترے تو نواب امیر محمد خان فوجی جوانوں میں بسکٹ تقسیم کررہے تھے ۔ جنرل شیر علی نے ملک صاحب سے کہا جناب آپ جیسے لیڈروں کی قوم کو ضرورت ہے ۔ جو لوگ اس طر ح کے کٹھن حالات میں اپنی فوج کے ساتھ اظہار ِیکجہتی کے لئے دشمن کی گولی کے سامنے کھڑے ہوسکیں وہ اپنے وطن کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ نواب صاحب نے جواب دیا جنگیں ہمیشہ قومیں لڑا کرتی ہیں اور میں اس قوم کا ایک فرد ہوں ۔ نواب نے جنرل شیر علی کو بتایا کہ میں نے اپنے جوانوں کے لئے سوجی ، ایلسی اور دیسی گھی کی آمیزش سے خاص بسکٹ تیار کرائے ہیں ۔ ان میں خاصی توانائی ہوتی ہے ۔ یہ جوانوں کو تازہ دم رکھیں گے ۔ نواب صاحب کے پاس جب کالاباغ میں کوئی اہم شخصیت دورہ کرتی تو اس کو خوش کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کیے جاتے ۔ معزز مہمان کے عہدے اور مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے تفریحی پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا۔ سکول کے اساتذہ ، طلبا اور عام شہری تقریب کی رونق کو دوبالا کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔ وی آئی پی مہمانوں کی آمد کے موقع پراستاد محمدافضل خان ، غلام رسول ، اکرم شاہ ، رمضان کروڑا اور اولیاء خان رضا کارانہ طور پرا پنی خدمات اسٹیٹ کے حوالے کردیتے ۔ مہمانوں کو خوش کرنے کیلئے اساتذہ اور طلباء کشتیوں میں سوار ہو کر وانڈھا ککڑانوالہ چلے جاتے ۔ وہاں اندھیرا چھا جانے کا انتظار کیا جاتا۔ موٹے گتے کے دیے بنا کر ان میں سر سوںکا تیل بھر دیا جاتا۔ روئی تیل میں ڈبو کر اس کا ایک سرا دیے کے کنارے پر رکھ کر آگ لگائی جاتی ۔ پانی کے بہائو کو دیکھتے ہوئے اس کی سطح پر دیے تیرانے کا سلسلہ شروع ہوتا ۔ پچا س دیے ایک ساتھ چھوڑ ے جاتے تووہ بہائو کے ساتھ ایک لمبی قطارکی شکل اختیار کرلیتے ۔ قمقموں کی یہ لہر جب ٹھاکا سے پیپل بنگلہ کی طرف آتی تو کیا خوبصورت منظر ہوتا۔ دور سے ایسا لگتاجیسے پانی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ مہمان اس خوبصورت منظرکو دیکھ کر خوش ہوتے ۔ ایوب خان کالاباغ کے دورے پر آئے تو حسب ِ روایت ان کے استقبال کی بھر پور تیاری کی گئی۔لاری اڈا سے کالاباغ شہر تک سڑک کو اچھی طرح صاف کیاگیا ۔ پانی کا چھڑکائو کرنے کے بعد کناروں پر چونا ڈالا گیا ۔ پولیس تمام انتظامات کا جائزہ لے رہی تھی ۔ کنٹرول نواب صاحب کی اپنی انتظامیہ کے ہاتھ میں تھا۔ کالاباغ شہر کے تمام سکولوں کے بچے ، اساتذہ اور عوام کو سڑک کے دونوں اطراف میںکھڑا کیا گیا ۔ ایک طرف کے لوگوں کے پاس جھنڈیاں اور دوسری طرف بچے ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں فضا میں بلند کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ ایوب خان کی گاڑی جونہی نمودار ہوئی ۔ فضا نعروں سے گونج اٹھی ۔ بچوں نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ بڑوں نے ہاتھ ہلا کر خوش آمدید کہا ۔ ایوب خان کی گاڑی جونہی بوڑھ بنگلہ کے قریب پہنچی نواب صاحب کی کچہری کے مزاحیہ فنکاروں کا ایک رکن غلام محمد ماچھی اپنی ٹیم کے ہمراہ سڑک کے درمیان میں آکر ناچنے لگا ۔ پولیس نے آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش کی تو نواب صاحب نے روک دیا ۔ ایوب خان نے جب دیکھا کہ ملک صاحب اس پر توجہ دے رہے ہیں تو گاڑی روک دی اور ناچنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر گاڑی بنگلے کی طرف لے گئے ۔ ایوب خان کو شام کے وقت غروب ِ آفتاب کا خوبصورت نظارہ دکھانے کے لئے عبدالحمید اور فیض رسول ملاح کشتیوں پر وانڈھا ککڑانوالہ کی طرف لے گئے۔ ایوب خان نے غروب ِ آفتاب کا منظر دیکھ کر کہا، یہ دنیا کے چند خوبصورت نظاروں میں سے ایک ہے ۔ نواب صاحب نے ایوب خان سے کہا میرا ارادہ اس علاقے کو مزید خوبصورت بنانے کا ہے ۔ میں چاہتاہوں اتلا پتن سے سالٹ مائنز تک پختہ سڑک تعمیر ہوجائے تاکہ سیاح با آسانی علاقے کی سیر کرسکیں ۔