اسحاق ڈار کی معافی وزیراعظم کے گلے پڑ گئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 30, 2017 | 13:03 شام

اسلام آباد(مانیٹرنگ رپورٹ)پاناما کیس کی سماعت کےا آغاز پر وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم جب کہ نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ جمع کرادیا۔پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد او

ر طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔نیب کے ریکارڈ کے مطابق 20 اپریل 2000 کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی جسے چیئرمین نیب نے 21 اپریل 2000 کو منظور کرلیا۔ 24 اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی، 25 اپریل کو اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔سماعت کے دوران اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کے موکل کے خلاف نااہلی کی درخواست اور انٹرا کورٹ اپیلیں خارج ہوئیں، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جاچکا ہے۔ دوبارہ تفتیش کروانے کے معاملے پر 2 رکنی بنچ میں اختلاف تھا، اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا، ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔ ہائی کورٹ کے 5 ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاو¿نٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے۔جسٹس اعجاز افضل کے استفسار پر شاہد حامد نے بتایا کہ اسحاق ڈار کا بیان ان کے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ کیا گیا، اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا، یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد جج سن چکے ہیں، منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈارکے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا، اب صرف الزام کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔شاہد حامد کی بات پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈارکومکمل معافی دی گئی اور انہوں نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی، معافی ملنے کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے، وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کا بیان ان کے نہیں بلکہ وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق تفصیلات عدالت کو بتانا شروع کیں، جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ نیب نے شریف فیملی کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیوں نہ کی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب میں کہا کہ ہائیکورٹ کے ججز کی دانش کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل دائر نہیں کی، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے دوربارہ استفسار کیا کہ کیا نیب ہائیکورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ نے نیب، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے پر اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کرلیا۔حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان پر بہت بوجھ ہے جس کی انہیں وضاحت کرنی ہے، عدالت نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات اور دستاویزات کا جائزہ لے، جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ حسن اور حسین کے خلاف تو کوئی بھی استدعا نہیں کی گئی، یہ کسی اور کی جائیداد تھی جو مختلف ذرائع سے ہوتی ہوئی آپ کے پاس آئی، تمام چیزیں نوازشریف کی طرف ہی لوٹ جاتی ہیں۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ درخواست گزارکی استدعا ہے کہ لندن فلیٹس لوٹی ہوئی رقم سے بنائے گئے، حسین نوازنہیں اصل مالک نواز شریف ہیں، اس لیے لندن فلیٹس کوضبط کیا جائے حالانکہ نواز شریف کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں اور ان فلیٹس کے بینی فیشل اونر حسین نواز ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں اور یہ جائیدادیں آپ کے موکل کی ہیں۔ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس بات کاتعین تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ درخواست میں براہ راست الزام نوازشریف پر نہیں،درخواست میں پوری شریف فیملی پر الزام ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں بیل کوسینگوں سے پکڑاجائے۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ درخواست گزار چاہتا ہے کہ لندن کی جائیدادیں ضبط کی جائیں،درخواست گزار کی استدعا میں تضادہے،درخواست گزار لوٹی ہوئی رقم کی تحقیقات چاہتاہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ الزام ہے لوٹی ہوئی رقم کی منی لانڈرنگ کی گئی،سلمان اکرم راجہ نے کہ کہ منی لانڈرنگ کا تعین184/3کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا،عدالت میں شواہد پیش نہیں کیے گئے،صرف الزام لگانے والوں کا موقف آیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ حسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینی فیشل مالک ہیں۔ آپ ریکارڈ سامنے لائیں توحقائق کا پتہ چلے گا،آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیاجائے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالت قانون کو دیکھے،ثبوت دیناالزام لگانے والوں کا کام ہے،ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتاہے،عدالت حاکم علی زرداری کیس میں یہ مثال قائم کرچکی ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا بوجھ ملزم پر کم ہے،کلثوم نواز نے 2000میں کوئی انٹرویونہیںدیا،میاں شریف نے گلف فیکٹری1973میں قائم کی،1978میں فیکٹری کے 75فیصد حصص فروخت کیے گئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ گلف اسٹیل ملز کب سے کمرشل آپریشنل ہوئی؟،گلف اسٹیل کیلئے قرضہ کس سے لیاگیا؟،قرضہ کس چیز پر لیاگیا یہ واضح نہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ یہ میاں شریف کا ریکارڈ ہے جو پیش کر رہاہوں،قرضے کے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں،یہ تسلیم شدہ ہے دبئی کی گلف فیکٹری 1973میں قائم کی گئی،75فیصد شیئرزکی رقم بینک قرضے کی مد میں واپس کی گئی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ گلف فیکٹری کے واجبات36ملین درہم تھے،فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے بتایاجائے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کمپنی خسارے میں تھی تو 12ملین درہم کیسے مل گئے؟۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہ تھا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ 1978میں فیکٹری کے 75فیصد حصص فروخت کرکے بھی15ملین واجبات باقی تھے،کیاآپ کو اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ کوئی اندازہ نہیں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف نے 15ملین درہم کیسے ادا کیے معلوم نہیں۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ کیا واجبات کی ادائیگی کا ریکارڈ موجود نہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ 40سال بعد ریکارڈ دستیاب نہیں،1999کے مارشل لا کے بعد ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ ہم تو صرف پوچھ رہے ہیں جائیداد کیسے خریدی گئی،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میاں شریف کا ٹرائل کیا جارہاہے،میاں شریف نے فیکٹری70کی دہائی میں لگائی،40سال کاریکارڈ سنبھال کر رکھنے کی کیاضرورت تھی؟،12ملین درہم شریف خاندان نے فیکٹری فروخت کرکے حاصل کیے،ان چیزوں کاریکارڈمانگاجارہاہے،جن کا تعلق میاں شریف سے ہے،1980میں فیکٹری فروخت کرکے معاہدے پر طارق شفیع نے دستخط کیے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ طارق شفیع کے دستخط میں بہت زیادہ فرق لگتاہے،بیان حلفی اور فیکٹری فرو خت کے معاہدے پر دستخط مختلف ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دستخط میں فرق آجاتاہے۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ 1972میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا؟،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی فیکٹری کیلئے پیسہ دبئی نہیں گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کوئی وضاحت نہیں کہ فیکٹری لگانے کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا،کسی کے پاس حقائق ہیں تو سامنے لائے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آہستہ آہستہ چلیں ساتھ لے کر چلیں،آپ نے ہمارے ذہن کو کلیئرر کرنا ہے جو خلا ہے اسے پر کرنا ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ مجھے کوئی جلدی نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہم کیس کے ہرپہلو کو جانناچاہتے ہیں،آپ جو کہانی سنارہے ہیں وہ پہلے بھی سن چکے ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میں تو صرف فیکٹری کے متعلق معاہدوں کوپڑھ رہاہوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ بیانات میں دبئی،جدہ اور لندن کا ذکرتھا،حسین نواز نے لندن،دبئی اور قطر کا ذکرکردیاہے،وکیل نے کہاکہ عبدالرحمان محمد عبداللہ نے دبئی فیکٹری کی خریدکو بیان حلفی میں تسلیم کیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی میں فیکٹری واجبات کی ادائیگی کا ذکر نہیں۔وکیل نے کہاکہ میاں شریف کے 70,80اور 90کی دہائی کے کاموں کا حساب کیسے دوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھا یہ سوال حسین کے وکیل سے پوچھیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ مجھ سے میرے بارے میں سوال پوچھیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے کہاکہ تمام ریکارڈ موجود ہے،وزیراعظم نے کہا ثبوتوں کا انبارموجود ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ وزیراعظم نے تمام ریکارڈ کی موجودگی کا ذکر کیا،سلمان اکرم راجہ نے طارق شفیع کا بیان حلفی عدالت میں پڑھ کر سنایا،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ طارق شفیع نے 12ملین درہم کی رقم دبئی سے فہدبن جاسم کو نقد دی،دنیا بھر میں نقد رقم سے کاروبار ہوتاہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں12ملین درہم کیسے ملے؟۔سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت(آج )منگل تک ملتوی کردی گئی ہے۔….