سیاست: پس آئینہ "کچھ"اور ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 18, 2022 | 16:45 شام

وہ چند روز پہلے خریدی نئی گاڑی صاف کر رہا تھا۔ ایک بولٹ لوز دیکھا تو رینچ لینے گھر کے اندر گیا۔ واپسی پر دیکھا،بیٹا گاڑی کے دوسری طرف پتھرسے”چیٹے،چریٹیں“ ماررہا ہے۔ یہ دیکھ کر باپ مشتعل ہو گیا۔لپک کر تھپڑ رسید کیا۔ بیٹے نے گال سہلانے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھایاتو اس پر رینچ دے مارا۔ غلطی کا احساس ہواتو بچے کو ہسپتال لے گیا۔ بدقسمتی سے انگلیاں کاٹنی پڑیں۔باپ کے پاس اب پچھتاوہ ہی پچھتاوہ تھا۔گھرآکر غصے میں کار کو ٹھڈے مارنے لگا۔ اسی دوران نظر ان ”سکریچز“ پر پڑی۔ وہ در اصل سکریچ نہیں تھے۔قریب کوئلہ پڑ
ا تھا جس سے گاڑی پر لکھا تھا”پیارے پاپا“ یہ لکھائی پوچی یاٹشو سے صاف ہو سکتی تھی۔ اگلے دن اس شخص نے خود کشی کر لی۔ ہماری سیاست کابھی عموماً پیش منظر کچھ پس منظر کچھ اور ہوتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال سید یوسف رضا گیلانی کی بپتاہے۔ وہ جونیجو دور میں وفاقی وزیر تھے۔ جونیجو، پیر پگارو کی جنرل ضیاء کو عطا تھے جو پہلے توجمہوریت کی بقا قرار پائے پھر خطا بن گئے۔گیلانی صاحب کی کہانی ان کے ہمرازوں نے بیان کی ہے:۔پیر پگارو کی مہربانی سے یوسف رضا گیلانی محمد خان جو نیجو کی کابینہ کے وزیر ریلوے بن چکے تھے۔ایک دن مرشد و مرید نے گیلانی صاحب کو بلا کر انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مشن سونپا۔اس ہلہ شیری پروہ تخت لاہور فتح کرنے نکل پڑے۔ سرکٹ ہاؤس ڈیرے ڈالے،ایم پی ایز سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔گیلانی یقین دلا رہے تھے کہ نواز شریف کے سر سے جنرل ضیاء نے ہاتھ اُٹھا لیا ہے۔یہ خبرہر سو پھیل گئی۔ مطلوبہ نمبر پورے ہونے پرانہوں نے پیر پگارو اور جو نیجوسے اگلے حکم بارے پوچھا۔ اگلے روز گیلانی کواُس وقت تک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگاجب خبر نامے میں نواز شریف کو جنرل ضیاء سے ملاقات کرتے دیکھا۔ (اس سے بڑے جھٹکے وزارتِ عظمیٰ سے نااہلی اورچیئرمین سینٹ بننے میں ناکامی بہت بعد کے ہیں) اس ملاقات نے گیلانی کے دماغ میں چنگاریاں بھر دیں۔اگلے روز پیر پگارو کا بیان " نواز شریف کی بوری میں کچھ سوراخ تھے جواس نے سی لیے ہیں "۔شائع ہوا جس نے چنگاریوں کے شعلوں میں بدل دیا مگر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔پھر ایک روز شکستہ دل گیلانی اُلجھے دماغ کے ساتھ پیر پگارو سے ملے اورروہانسی آواز میں پوچھا۔”مرشد آپ نے میرے ساتھ یہ کیا کیا؟“ پیر پگارو مسکرائے، سگار سلگایا دھوئیں کے مرغولے اُڑاتے ہوئے بولے، بر خوردار! ہم نے تمہیں استعمال کیاہے۔ دراصل نواز شریف کچھ عرصے یہ تاثر دے رہے تھے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنی قابلیت بَل پر بنے ہیں۔ جنرل ضیاء نے شکوہ کیا تو میں نے کہا، یہ کون سی بڑی بات ہے، بچے کو درست کر دیتے ہیں۔میری نظر تم پر پڑی۔تم نے ہماری توقعات کے مطابق کام کیا۔جب نواز شریف کو پتہ چلا کہ اقتدار ہاتھوں سے نکل رہا ہے تو وہ دوڑا دوڑا جنرل ضیاء کے پاس گیا اور دوبارہ بیعت کر لی۔ اب اُس دور سے تھوڑا آگے اور آج سے کچھ عرصہ پیچھے چلتے ہیں۔ 29جولائی 2007ء بینظیر بھٹو دبئی میں صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کررہی تھیں۔اگلے روز ملاقات کی خبرکا کہیں ذکرنہیں تھا۔اس کے بجائے محترمہ کے برطانوی اور جرمن اخبارات کو دئیے گئے انٹرویوز شائع ہوئے جن میں کہا گیا ”مشرف کے موجودہ اسمبلیوں سے صدارتی انتخاب پر عدالت جائیں گے۔باوردی صدر سے بات نہیں ہوگی“۔ میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے سرِ آئینہ میرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے پس آئینہ کی ایک درخشاں مثال میاں نواز شریف کی جلا وطنی ہے۔ ان کے وکیل اعتزاز حسن تھے۔ وہ یہ واقعہ دُہراتے رہتے ہیں:۔ ایک دن کلثوم نواز نے کہا کہ میاں نواز شریف نے جیل سے پیغام دیا ہے۔"لڑ مرو، جنگ تیز کرو، ہم مشرف آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے"۔ ہم نے تیاری پکڑ لی، اس کے تیسرے دن 9دسمبر2000ء کو میڈیا کے لوگوں کے فون آنے لگے؛ نواز شریف سعودیہ جا رہے ہیں۔ میں نے کلثوم نواز کے پیغام کے پیش نظر کہا کہ یہ ناممکن ہے۔اگلے روز ایک اخبار نے نواز شریف کے سعودی عرب جانے کی خبر ان کی جہاز میں سوار ہوتے تصویر کے ساتھ دی۔ ذیلی خبر کی سرخی تھی۔"یہ ناممکن ہے،اعتزاز حسن وکیل نواز شریف۔" جن دنوں نواز شریف لانڈھی جیل میں تھے تو ان کے رابطے بل کلنٹن، مارک لائل گرانٹ، سعد حریری اورسعودی عرب کے حکمرانوں سے تھے جو ان کی جلا وطنی میں مددگار بنے۔ آج پھررابطوں کے دعوے اور تردیدیں ہورہی ہیں۔ میاں نواز شریف سزا یافتہ ہیں لیکن وہ جیسے بھی ہواجیل سے لندن جابسے۔کبھی وہ پاکستان سے باہر جانے کیلئے رسے تُڑا رہے تھے اب کچھ لوگوں کے بقول واپسی کے لئے زور لگا رہے ہیں۔ان کی واپسی پر پابندی نہیں مگر جیل مگر مچھ کی طرح منہ کھولے نظر آتی ہے۔وہ اپنے محلات میں قیام کرنا چاہتے ہیں۔آج ان کے عالمی رہنماؤں سے رابطے آسان ہیں جو کسی بھی وقت رنگ لاسکتے ہیں۔ کسی وقت بھی بڑی خبر وجودِ اخفا سے منصہئ شہود پر آسکتی ہے۔مگرکیا نواز شریف نے عواقب و نتائج کا جائزہ لینے کے بعد واپسی کا عزم کیا ہے یا یہ وقتی ولولہ و اُبال ہے؟۔ نواز شریف،جنرل مشرف اور الطاف حسین اپنے کرداروں فن پاروں میں ٹارزن ہیں۔ ناممکنات کو ممکن بنانے والے۔الطاف کو کل برطانوی جیوری نے دہشتگردی سے مبرا و مصفیٰ قراردیا ہے۔'بھائی'پھر پاکستان چلے آئیں۔مگر اب نہیں آئیں گے۔ تو کب؟مشرف نے ایک مرتبہ آکر دیکھ لیاتوجان پر بن گئی اور کمانڈو جان بچا کر نکل لیا۔وہ بھی اب نہیں آئیں گے۔تو کب؟میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا یقین دلا دیا جائے تو بھی وہ 'اب' پاکستان نہیں آئیں گے۔ جہاں وہ کسی بھی لمحے اور مرحلے پر عدلیہ یا فوج کے گھیرے میں آ سکتے ہیں۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی سزاؤں سے نہ بچ پائے اس سے زیادہ ان کے پاس طاقت اور امکانات کیا ہونگے!۔پھر میاں صاحب کب آئیں گے؟ سید عبداللہ شاہ وزیرِ اعلیٰ سندھ رہے۔ آج کے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ابا جی۔بیظیر بھٹو کی 93میں حکومت توڑی گئی تو عبداللہ شاہ بھی زد پر آگئے۔نواز شریف دور میں ان پر مقدمات کی سیریز بنی تو یہ امریکہ چلے گئے۔شمعِ زندگی بجھتی دیکھی تو2007ء میں مفلوج البدنپاکستان چلے آئے۔سر ایک طرف ڈھلکا،نظریں دیدہئ فرش، عدالت میں ویل چیئرپر ضمانت کیلئے پیش کیا گیا۔امریکہ سے روانگی سے قبل کہاکہ وہ اپنے وطن میں مرنا اور دفن ہونا چاہتے ہیِں۔ہمارے ٹارزنوں کو بھی وطن کی مٹی دمِ آخریں یاد آاور ستا سکتی ہے۔یہ لوگ جیل تو کیا موت سے بھی نہیں ڈرتے مگر لانڈھی جیل کے مچھر قیدی کو اُٹھا کرلے جاسکتے ہیں توکھٹمل جپھا ڈال کر مچھروں کو بے بس کردیتے ہیں۔