اسلام میں پڑوسی کے حقوق اور معاشرہ پر اسکے اثرات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 30, 2017 | 10:24 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک / امیر افضل اعوان): دےن اسلام میں ہر تعلق، رشتے اور انسان سے وابستہ ہر فرد کی اہمیت، احترام اور مقام کی بہت وضاحت کے ساتھ تفصیل بیان کی گئی ہے، بلاشبہ دین اسلام وہ دین ہے کہ جس میں غیر مسلموں کو بھی ان کے بنیادی حقوق سے سرفراز کیا گےا، یہ وہ آفاقی مذہب ہے کہ جس میں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ غلام اور لونڈی کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا اور یہ ہی وہ دین حق ہے کہ جس میں جانوروں تک کے بنیادی حقوق بڑی ہی وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔اسلام میں جہاں رشتہ داری ک

ی اہمیت بیان کی گئی ہے وہیں رشتہ داروں کے علاوہ ان افراد کی جن کے ساتھ کوئی بھی مومن میل جول رکھتا ہے ، ان کے حقوق کا بیان موجود ہے ۔ بلکہ ہمسایہ کی اہمیت تو اس کے غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمہ ہے۔ اس حوالہ سے ہمسایوں کو 3درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے،پہلا وہ جو غیر مسلم ہو اس کا حق ایک درجہ ہے دوسراجو مسلمان ہو مگر رشتہ دار نہ ہو اس کا حق دو درجے ہے یعنی وہ پڑوسی بھی ہے اور مومن بھی اسی طرح تیسرا وہ جو ہمسایہ بھی ہے رشتہ دار ہے اور مومن بھی، تو اسلام میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے تاکہ ایک مستحسن معاشرہ قائم ہوسکے۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ” اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے، اور پہلو کے ساتھی سے، اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) یقےنا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا“ سورة النساء، آیت 36،اس آیت مبارکہ میں قرابت دار پڑوسی کے حوالہ سے استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو، مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن و سلوک کیا جائے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار احادےث مبارکہ میں بھی اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے، یہاں پہلو کے ساتھی سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص ہے جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت و ہم نشینی اختیار کرے بلکہ اسکی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم یا کوئی کام سیکھنے کے لئے یا کسی کاروباری سلسلہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے، راہ کے مسافر میں گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں۔

سورة النساء کی اس آیت مبارکہ میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے، ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی ہوں، دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتہ دار نہ ہوں، تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو، حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے، تاہم اسی ترتیب سے ان کا خیال ضرور رکھا جائے، سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں، پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے، اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسایوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسایوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین، ہم جماعت یا ساتھ کام کرنے والے ہوں۔

اسلام نے مختلف وسعت پذیر دائروں میں مسلم معاشرے کی زندگی منظم کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی ہے تا کہ پورا معاشرہ منظم ہو جائے، اس سلسلے میں والدین اور رشتہ داروں کے حقوق سے شروع ہو کر یہ سلسلہ پڑوسیوں ، دوستوں اور آشناﺅں سے ہوتا ہوا غریبوں اور غیر مسلموں تک جاتا ہے،اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوس کے دائرے کو جس قدر ممکن ہو وسعت دی جائے۔ مگر اسلامی تعلیمات اور احکامات الٰہی بارے ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں“ین اسلام میں ایک جانب یہ بتایا جارہا ہے کہ جو پڑوسی کاخیال نہ رکھے تو اللہ پاک اس سے ناراض ہوجائے گا، یہ بھی کہ جو اپنے ہمسائے کو ستائے وہ مومن ہی نہیں تو ایک جانب یہ بھی وضاحت کی جارہی ہے کہ ایسے شخص کی عبادات بھی قبول نہیں اور وہ جہنم میں جائے گا، اس سلسلہ میں ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ” ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ فلاں عورت کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ کرنے میں مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے نبی کریم نے فرمایا وہ جہنمی ہے پھر اس نے کہا یا رسول اللہ فلاں عورت نماز، روزہ، اور صدقہ کی کمی میں مشہور ہے وہ صرف پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے۔

حقوق ہمسائےگی کا اسلام میں اس قدر بےان ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگا گویا کہ پڑوسی آپ کے گھر یا خاندان کا ہی ایک شخص ہو ، اس بارے میں ایک حدیث مبارکہ میں بیان ہے ” ایک انصاری صحابی ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ نبی کریم کھڑے ہیں اور نبی کریم کے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے جس کا چہرہ نبی کریم کی طرف ہے میں سمجھا کہ شاید یہ دونوں کوئی ضروری بات کر رہے ہیں بخدا! نبی کریم اتنی دیر کھڑے رہے کہ مجھے نبی کریم پر ترس آنے لگا جب وہ آدمی چلا گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آدمی آپ کو اتنی دیر لے کر کھڑا رہا کہ مجھے آپ پر ترس آنے لگا نبی کریم نے فرمایا کیا تم نے اسے دیکھا تھا ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! نبی کریم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریم نے فرمایا وہ جبرائیلؑ تھے جو مجھے مسلسل پڑوسی کے متعلق وصیت کر رہے تھے حتیٰ کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ وہ اسے وراثت میں بھی حصہ دار قرار دے دیں گے پھر فرمایا اگر تم انہیں سلام کرتے تو وہ تمہیں جواب ضرور دیتے۔“ (مسند احمد)پڑوسےوں کے حقوق کے حوالے سے معاذ بن جبلؓ سے منقول ہے کہ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر وہ تجھ سے قرض مانگے تو اسے قرض دے ، اگر تجھ سے مدد مانگے تو اسے مدد مہیا کر ، اگر ضرورت مند ہو تو اسے عطا کر ، اگر بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کر ، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے پیچھے جا ، اگر اسے کوئی خیر پہنچے تو تجھے خوشی ہو۔