چینی صدر نے پہلی مرتبہ انتہائی سخت اعلان کردیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 28, 2018 | 18:49 شام

بیجنگ (مانیٹرنگ رپورٹ) ساری دنیا جانتی ہے کہ چین اپنی ”ون چائنہ پالیسی“ کے متعلق بہت حساس ہے لیکن امریکا کو کون سمجھائے جو آئے دن اس کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا ہے۔ کبھی بحیرہ جنوبی چین میں مداخلت کر کے اور کبھی تائیوان کو چین کے خلاف ابھار کر ایسی کوششیں کی جاتی ہیں جن پر چین کا مشتعل ہونا فطری بات ہے۔ ون چائنہ پالیسی کے تحت چین کا ہمیشہ سے واضح مﺅقف رہا ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے، مگر امریکی شہہ پر نئی تائیوانی حکومت نے ایک بار پھر علیحدگی کا اشارہ دے دیا ہے، جس پر چین شدید برہم ہے ا

ور تائیوان کو خطرناک نتائج کی دھمکی دے ڈالی ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے علیحدگی کی کوشش کی تو اسے ایسی سزا ملے گی کہ ”جس کی تاریخ میں مثال نہیں ہو سکے گی۔“ تائیوان کی حکومت کو بھی خطرے کا احساس ہو گیا ہے اور غالباً اسی لئے چین کی سنگین دھمکی کے جواب میں جاری کئے گئے ایک بیان میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ چین طاقت کے استعمال سے گریز کرے گا۔ واضح رہے کہ تائیوان کے لئے چین کا رویہ 2016ءکے انتخابات کے بعد سے مزید سخت ہوچکا ہے۔ ان انتخابات میں سائی انگ وین کو تائیوان کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ تائیوان کی آزادی پسند ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے رہنما ہیں۔ چین کو خدشہ لاحق ہے کہ سائی جزیرہ تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چین اس عمل کو سرخ لکیر عبورکرنے کے مترادف قرار دیتا ہے جس کا نتیجہ تائیوان کے لئے خطرناک ہو گا۔

پہلے سے خراب حالات اس وقت مزید کشیدہ ہوگئے جب امریکہ نے بھی گزشتہ ہفتے ایک نئے قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق اس کے اعلیٰ حکام بالکل اسی طرح تائیوانی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرسکتے ہیں جس طرح وہ کسی بھی دوسری آزاد ریاست کے حکام سے ملتے ہیں۔ چین نے امریکہ کی اس حرکت پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے اور اسے تائیوان کو چین سے الگ آزاد ملک تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔