مامون الرشید کی وہ لونڈی جو اس سے نفرت کرتی تھی ۔۔۔پڑھیے شیخ سعدیؒ کی بیان کردہ دلچسپ داستان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 15, 2018 | 08:15 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ)): حضر ت سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ مامون الرشید نے ایک لونڈی خریدی جو انتہائی خوبصورت اور خوب سیرت تھی‘ مامون الرشید اس لونڈی کو خرید کر بے حد مطمئن تھا لیکن جب مامون الرشید اس لونڈی کے پاس گیا اور گفتگو شروع کی تو اس لونڈی نے انتہائی غرور اور نفرت سے منہ دوسری طرف پھیر لیا‘بھلا بادشاہ کے مزاج پر یہ بات کیسے گراں گزرتی آخر اس لونڈی کی حیثیت بادشاہ کے سامنے چیونٹی سے بڑھ کر کیا تھی؟ وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا اور اس لونڈی کواس گستاخی پر قتل کرنے پر آمادہ ہو گیا لی

کن پھر اس کا تدبر اس کے غصے کے آڑے آ گیا‘ اس نے نہایت قہر آلود نظروں سے دیکھتے ہوئے لونڈی سے اس کے اس طرح کے برتاﺅ کا سبب پوچھا‘ لونڈی نے نہایت صاف جواب دیتے ہوئےجواب دیتے ہوئے کہا ” اے امیر المومنین! آپ بلاشبہ قتل کر ڈالیں لیکن مجھے آپ کی قربت پسند نہیں“۔ اب تو مامون کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا لیکن وہ ایک بار پھر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بولا ”اس گستاخی کی وجہ کیا ہے؟“لونڈی نے سپاٹ لہجے میں کہا ” آپ کے منہ سے ناقابل برداشت بو آتی ہے جو مجھ سے ضبط نہیں ہوتی“۔ مامون کو اس سے پہلے کسی نے اس کی اس بیماری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا بھلا کس میں یہ تاب تھی کہ بادشاہ وقت کو اس کمزوری سے خبردار کرتا‘ اگرچہ مامون کو اس وقت لونڈی کی اس جرا ¿ت پر پہلے سے بھی زیادہ غصہ آیا لیکن وہ خاموش ہو گیا اور تحمل مزاجی کاثبوت دیا‘ شاہی طبیب سے اس نے باقاعدہ علاج کروایا اور چند روز کے علاج کے بعد وہ بالکل صحت یاب ہو گیا اور اس صاف بیان پر لونڈی کی اس نے بہت عزت کی۔۔یہ بھی پڑھیے ۔۔۔ کیا میں بڑا آدمی بن سکتا ہوں؟پنجاب یونیورسٹی کا ایک پروفیسر صبح کے وقت اس کے کھوکھے سے چائے پیتا تھا‘ وہ بچے کی محنت پر خوش تھا‘ وہ اسے روز کوئی نہ کوئی نئی بات سکھاتا تھا‘ جہانگیر نے ایک دن پروفیسر سے پوچھا ’’ماسٹر صاحب ! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں‘‘ پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘ جہانگیر کا اگلا سوال تھا ’’کیسے؟ پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالا‘ جہانگیر کے کھوکھے کے پاس پہنچا‘ دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں‘ پہلی لکیر پر محنت‘ محنت اور محنت لکھا‘ دوسری لکیر پر ایمانداری‘ ایمانداری اور ایمانداری لکھا اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر (سکل) لکھا۔ جہانگیر پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا‘ پروفیسر یہ لکھنے کے بعد جہانگیر کی طرف مڑا اور بولا ’’ترقی کے تین زینے ہوتےتین زینے ہوتے ہیں‘ پہلا زینہ محنت ہے‘ آپ جو بھی ہیں‘ آپ اگر صبح‘ دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے‘ آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان‘ فیکٹری‘ دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہئے اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہئے‘ آپ کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔پروفیسر نے کہا’’ ہمارے گرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں‘ یہ محنت نہیں کرتے‘ آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں‘ آپ ترقی کیلئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں‘ اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے‘ ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے‘ وعدے کی پابندی‘ جھوٹ سے نفرت‘ زبان پر قائم رہنا اوراپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔ آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو‘ وعدہ کرو تو پورا کرو‘ جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو‘ زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو آپ اس پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی‘ کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو‘تم ایماندار ہو جاؤ گے۔ کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے‘آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں‘ آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے اور پیچھے رہ گیا 20 فیصد تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے‘ آپ کا پروفیشنل ازم‘ آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا‘ آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔ پروفیسر نے جہانگیر کو بتایا۔ ’’لیکن یہ یاد رکھو ہنر‘ پروفیشنل ازم اور سکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے‘