لارنس آف عربیہ کی حقیقی داستان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 23, 2019 | 18:14 شام

گذشتہ سے پیوستہ:

کسی زمانے میں ازرق کا 2000 سال پرانا قلعہ، ایک 60 فیٹ کی سنگی عمارت، مشرقی اردن کے صحرا میں ایک دیو کی مانند ایستادہ تھا۔ اس کی اوپری منزلیں اور جنگی برج 1927 میں ایک بڑے زلزلے کے نتیجے میں زمیں بوس ہو گئے، لیکن عمارت اب بھی اتنی متاثّر کن ہے کہ کبھی کبھار 50 میل مغرب میں واقع عمان کی کسی سیّاحوں کی بس کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہاں سب سے پہلے سیّاحوں کو جو جگہ دکھائی جاتی ہے وہ جنوبی ٹاور پر، جو ابھی بھی سلامت ہے، واقع ایک کمرہ ہے، جس کا تعارف “لارنس کا کمر

ہ” کہہ کر کروایا جاتا ہے۔ 
یہ ایک نیچی چھت والا کمرہ ہے، ٹھنڈا اور کسی حد تک سیلن والا، پتھروں کا فرش، تنگ کھڑکیاں، جن سے چاروں طرف محیط صحرا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کمرہ ایک پناہ گاہ کا احساس دلاتا ہے، اور در حقیقت، لارنس نے 60 میل دور درعا میں اس ناخوشگوار واقعے کے بعد یہیں اپنے آپ کو بحال کیا تھا۔ اور یہی وہ جگہ بھی ہے جہاں پہلی جنگ عظیم کے نقطہئی عروج پر اس نے شام کے اندر ترک افواج پر ایک بہت بڑے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اس حملے کو فلسطین میں ایلن بی کی افواج کے شمال میں ترکوں کا صفایا کر دینے والے حملے کے ساتھ مربوط کیا جانا تھا۔ لارنس کا نصب العین یہ تھا کہ ترکوں کی پسپائی کی راہ کو اس کے نازک ترین مقام پر کاٹ دیا جائے: یعنی درعا کا ریلوے جنکشن۔ 19 ستمبر 1918 کی صبح لارنس اور اس کے ساتھیوں نے ازرق کے قلعے سے نکل کر اس قصبے کی طرف پھیلنا شروع کر دیا جہاں لارنس کو اذیّتیں دی گئی تھیں۔ 
27 ستمبر کو طفاس گاؤں پہنچنے پر، جہاں فرار ہوتے ہوئے ترکوں نے وہاں رہنے والوں کا قتل عام کیا تھا، لارنس نے اپنے آدمیوں کو حکم جاری کیا “کوئی رعایت نہ کی جائے۔ ” سارا دن باغی 4000 فوجیوں کے ایک پسپا ہوتے لشکر کے سپاہیوں کو جستہ جستہ پکڑتے اور جو ملتا اسے قتل کرتے رہے، لیکن جب لارنس نے اس سہ پہر صورتحال کا جائزہ لیا تو اسے پتا چلا کہ اس کے ایک دستے تک اس کا یہ حکم نہیں پہنچا تھا، اور انہوں نے 250 ترکوں اور جرمنوں کو قیدی بنا لیا تھا۔ “ہم نے اپنے گرم بوسے (مشین گن) کا رخ قیدیوں کی سمت پھیرا”، اس نے اپنی میدانِ جنگ کی رپورٹ میں درج کیا، “اور ان کا خاتمہ کر دیا۔ ” اس دن کے بارے میں لارنس نے اپنی کتاب “سات ستون” میں زیادہ وضاحت کی ہے۔ “طفاس کی دہشت سے جنم لینے والے پاگل پن میں ہم قتل کرتے گئے اور کرتے گئے، یہاں تک کہ گرے ہوئے لوگوں کے سروں میں بھی گولیاں داغیں اور جانوروں کے بھی، جیسے کہ ان کی موت اور اچھلتا ہوا خون ہمارے کرب کا مداوا بن جائے گا۔ “
بھاگم بھاگ دمشق پہنچ کر لارنس نے فوراً ایک عبوری عرب حکومت تشکیل دے دی جس کا سربراہ فیصل تھا۔ لیکن جب دو دن بعد ایلن بی دمشق پہنچا تو اس نے لارنس اور فیصل کو وکٹوریہ ہوٹل طلب کیا اور ان کو آگاہ کیا کہ سائکس – پیکو میں درج خاکے کے مطابق اس شہر کو فرانسیسی انتظامیہ کی عملداری میں دیا جائے گا۔ دل شکستہ فیصل کے کمرہ چھوڑنے سے پہلے ہی لارنس نے ایلن بی سے التجا کی کہ اسے اس کی فوجی رہنمائی کی ذمّہ داریوں سے فوری طور پر سبکدوش کر دیا جائے۔ 
لیکن لارنس کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ یورپ میں جنگ ختم ہونے جا رہی تھی، اس لیے لارنس جلد ہی پیرس میں منعقد کی جانے والی امن کانفرنس میں عربوں کے مفاد کو سلامت رکھنے کی غرض سے جلد از جلد لندن پہنچا۔ کانفرنس میں فیصل کے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے اس نے شریک وزرائے اعظم اور صدور وغیرہ کو اس بات پر قائل کرنے کی دیوانہ وار کوشش کی کہ عربوں سے کیے گئے وعدوں کا پاس کیا جائے، اور سائکس – پیکو کے خاکے پر عملدرآمد سے احتراز کیا جائے۔ اس اسکیم کے مطابق “عظیم تر” شام کو چار سیاسی وحدتیں میں تقسیم کیا جانا تھا — فلسطین، اردن، لبنان اور شام – جن میں سے فلسطین اور اردن برطانیہ کو ملنے تھے اور لبنان اور شام فرانس کو۔ عراق کے بارے میں برطانیہ نے پہلے تو یہ سوچا تھا کہ وہ صرف اس کے تیل سے مالامال جنوبی علاقوں کو ہی اپنے پاس رکھے گا، مگر شمال میں مزید تیل کی دریافت کے بعد اب وہ پورے عراق کو اپنی گرفت میں رکھنے کا خواہاں تھا۔ 
لارنس اتحادیوں سے جہاں بھی مل سکتا تھا ملتا رہا۔ یقیناً ان میں سب سے اہم خائم وائزمن تھا، جو انگریز صیہونیوں کی تنظیم کا سربراہ تھا۔ جنوری 1919 میں امن کانفرنس کے موقع پر لارنس فیصل اور وائزمین کے درمیان ایک معاہدے کو بارآور کرنے میں کامیاب ہو چلا تھا۔ فیصل کے زیرنگیں شام کے لیے صیہونیوں کی حمایت کے صلے میں فیصل کو یہودیوں کی فلسطین میں بڑے پیمانے پر ہجرت کی حمایت کرنی تھی، جو ڈھکے چھپے انداز علاقے میں مستقبل کی ایک یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ اس سمجھوتے کو جلد ہی فرانسیسیوں نے خاک میں ملا دیا۔ 
لیکن اس ضمن میں سب سے تیکھی چیز امریکیوں کا اس معاملے میں کودنا تھا۔ پیرس میں اپنے یورپی ساتھیوں کی سامراجی اسکیموں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے، صدر ووڈرو ولسن نے ایک حقائق کی چھان بین کرنے والا کمیشن مشرق وسطیٰ بھیجا۔ تین ماہ تک یہ کنگ –کرین کمیشن شام، لبنان اور فلسطین میں پھرتا رہا اور جو انہوں نے وہاں کے لوگوں سے سنا وہ دو ٹوک الفاظ میں یہ تھا: ہر لسانی اور مذہبی گروہ کی اکثریت خودمختاری چاہتی تھی، بصورتِ دیگرامریکہ کی حکومت۔ ولسن بہرحال امریکہ کے جھنجھٹوں کو بڑھنے کی جگہ دوسروں کو یہ بتانے کا زیادہ خواہاں تھا کہ ان کو کیا کرنا چاہیے۔ جب یہ کمیشن اپنی سکون برباد کرنے والی یافت کے ساتھ پیرس لوٹا تو اس کی رپورٹ کو سیدھے سادے طریقے سے بالائے طاق رکھ دیا گیا۔
لارنس کی ان کوششوں نے ایک عجیب ظالمانہ اور افسوسناک صورتحال پیدا کر دی۔ جہاں برطانیہ میں اس کو، امریکی صحافی لوویل تھامس کے ایک دلکش لیکچر شو کے حوالے سے جو وہ لارنس کے محیّر العقول کارناموں کے بارے میں کر رہا تھا، لگ بھگ ایک دیوتا سمجھا جا رہا تھا، وہیں برطانوی سرکاری حلقوں کی نظر میں اس کی ایک ایسے دشمن کی حیثیت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی جس کی بیہودگیاں فاتح برطانیہ اور فرانس کے درمیان مال غنیمت بانٹنے میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھیں۔ آخر کار عملاً اس سرکش لیفٹیننٹ کرنل کو امن کانفرنس میں جانے سے اور فیصل سے مزید کوئی رابطہ کرنے سے موثّر طور پر روک دیا گیا۔ اب سامراجی یکجہتی کی راہ ہموار تھی – اور فریب کاری – واضح۔ 
نتائج بہت جلدی سامنے آ گئے۔ ایک سال کے اندر اندر، مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر حصّے میں عرب دنیا کے نام پر ایک آگ لگ گئی تھی، عربوں نے اس بات پر سخت برہم ہو کر بغاوت کر دی تھی کہ ان کے عثمانی آقاؤں کی جگہ یورپیوں نے لے لی تھی۔ لارنس نے عراق کے بارے میں بطور خاص پیش بینی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 1919 میں اس نے وہاں برطانوی حکمرانی کے خلاف مارچ 1920 تک بھرپور بغاوت کی پیشگوئی کی تھی – “اگر ہم نے اپنے طور طریقے نہ بدلے تو۔ ” مئی 1920 کی آزادی طلبی کا نتیجہ 10000 کے لگ بھگ افراد کی موت کی شکل میں ظاہر ہوا جن میں سے 1000 برطانوی سپاہی اور حکّام تھے۔ 
اس ہزیمت سے نمٹنے کی ذمّہ داری برطانوی نو آبادیوں کے سیکریٹری ونسٹن چرچل کو سونپی گئی، جس نے اسی شخص سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جس کا انتباہ بے رخی سے ٹھکرا دیا گیا تھا: ٹی ای لارنس۔ 1921 کی قاہرہ کانفرنس میں لارنس نے کچھ غلطیوں کو درست کرنے میں مدد کی۔ نتیجتاً مستقبل قریب میں فیصل کو، جسے فرانسیسیوں نے شام سے معزول کر دیا تھا، برطانیہ کے زیر انتظام عراق کا بادشاہ بنایا جانا تھا۔ برطانیہ کی بفر ریاست ٹرانس اردن میں ایک نئی قوم کی تشکیل کی جانی تھی، جس کا سربراہ فیصل کے بھائی عبد اللہ کو بنایا جانا تھا۔
بہرحال، ایک متحد عرب قوم کا امکان اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی لارنس کے اندر موجود جد و جہد کی عادی روح، اور قیادت کی خواہش بھی تحلیل ہو چکی تھی۔ جب اس کا چرچل کے ساتھ اشتراکِ عمل ختم ہوا تو اس نے قانونی طور پر اپنا نام بدل لیا اور برطانوی فوج کو درخواست دی کہ اسے دوبارہ ایک سراغرساں کے طور پر ملازمت میں رکھ لیا جائے۔ جیسا کہ اس نے ایک دوست کو بتایا کہ اب وہ کبھی کوئی ذمّہ داری نہیں سنبھالنا چاہتا۔