پہلی جنگ عظیم کی ایسی داستان جو آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 12, 2017 | 20:13 شام

لاہور(مہرماہ رپورٹ): پہلی جنگ عظیم میں کڑوڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے ۔یہ ایسی جنگ تھی جس میں خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی کہ انسانیت کا وجود ہمیشہ کے لیے شرمندہ رہے گا ۔پہلی جنگ عظیم کے دوران اپنے دوست فوجی کو میدان جنگ میں جھڑ سے گرتا ہو ا دیکھ کے اس کا دل خوف سے گھر گیا۔ گولیوں کی بوچھاڑ کی گھن گرج کا شور تھا۔ خندق میں بیٹھے اس نے اپنے لیفٹینینٹ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے کامریڈ کو اٹھانے کے لیے جا سکتا ہے؟ لیفٹینینٹ نے اجازت دیتے ہوئے کہا: لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اسکا کوئی فائدہ ہوگا کیونکہ تمہا

را دوست مر چکا ہے اور تم اپنی زندگی بھی کھو سکتے ہو۔ لیفٹینینٹ کی نصیحت کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اسے لینے چل دیا۔ معجزانہ طور پر وہ اپنے دوست تک پہنچ ہی گیا، اسے اپنے کندھوں پرلادا اور اسے اپنی کمپنی کے خندق تک واپس لے آیا۔ جیسے ہی وہ خندق کی تہہ تک پہنچے، آفیسر نے اس فوجی کے زخم دیکھےکے زخم دیکھے اور رحم دلانہ طریقے سے اپنے دوست کی طرف دیکھ کرسر ہلا دیا۔ لیفٹینینٹ نے اسے کہا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اب دیکھو تمہارا دوست بھی مر گیا ہے اور تم خود بھی زخمی ہو۔ اس نے جواب دیا: سر، اسکا فائدہ ہوا ہے۔ لیفٹینینٹ نے پوچھا: کیا فائدہ؟ تمہارا دوست مر چکا ہے۔ اطمینان سے اس نے جواب دیا: جی ہاں سر، لیکن اسکا فائدہ ضرور ہوا۔ کیونکہ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ زندہ تھا اور اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا: مجھے معلوم تھا کہ تم آؤ گے۔اسی طرح زندگی میں کسی کام کو بے فائدہ مت جانیں۔ کام کا فائدہ یا بے فائدہ ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اس کو کیسے دیکھتا ہے۔ اپنا حوصلہ بڑھائے رکھیں اور جو آپکو دل کہتا ہے وہ کر گزریں۔ تاکہ بعد ازاں آپ کو پچھتاوے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ جب کسی کام کو کرنے کا حوصلہ ہو تبھی وہ کام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔