اللہ اُدھر ای موجود تھا صاحب جی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 06, 2018 | 07:34 صبح

میں سوچ رھا تھا کہ مُنشی جی بوڑھے ھوتے جا رھے ھیں ، اُن کی مدد کے لیئے کوئی بندہ رکھ لوں ، اگلے روز ھی پھیکا ملنے آ گیا ، بڑے جوش میں تھا ، آتے ھی کہنے لگا "صاحب جی ایک ضروری بات کرنی ھے آپ سے" بتا پھیکے خیر تو ھے ناں ، پھیکا مُجھ سے صلاح لینے آتا تھا پر وہ کیا جانے اس کی باتیں میری کتنی اصلاح کرتیں تھیں ، بڑے کٹھن اور دشوار ھوتے ھیں حیاتی کے راستے.. پھیکے نے بُکّل کے چور کو پکڑ لیا تھا ، اُس کے ھاتھ میں چراغ

آ گیا تھا جیسے بُکّل میں سورج باندھ رکھا ھو ، میں بھی اُس کی روشنی میں سر نہواڑے چپکے چپکے پھیکے کے پیچھے چلا جا رھا تھا ، میں نے پھیکے کو جپھا مار رکھا تھا میں جانتا تھا وہ مُجھے گرنے نہیں دے گا..
صاحب جی کدھر گم ھو گئے؟ پھیکے کی آواز پر میں نے آنکھوں میں آئی نمی کو چھپا کر پوچھا بتا یار تُو کیا بتانے والا تھا؟ صاحب جی جن کے کار میں کم کرتا ھوں نا ، وہ ، اپنے آفاق صاحب ، اِنہیں اور چھوٹی دُلہن صاحبہ کو کہیں جانا پڑ گیا ، جب آفاق صاحب کار نہیں ھوتے تو میں اپنے کواٹر کی بجائے ان کے کار میں ای سوتا ھوں ، اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی آدھی رات کو کھٹکا ھوا ، اکھ کھلی تو دیکھا چور ، مُنہ پر کپڑا باندھا ھوا تھا جی اُس نے پر شُکر ھے اُس کے پاس پستول وَستول نہیں تھا.. اوہو پھر کیا کِیا تُو نے؟ صاحب جی کرنا کیا تھا؟ چُپ کر کے پیچھے سے جا کر پکڑ لیا جی میں نے اور "چور چور" کی کھپ ڈال دی ، سارے ملازم دوڑے آئے ، سب نے مِل کر قابو کر لیا جی اُس کو ، بیس بائیس سال کا جوان ، اللہ جھوٹ نہ بُلوائے چور لگتا ھی نہیں تھا جی ، میں نے اُس کو بِٹھا لیا اور اسلم سے کھانا لانے کو کہا ، اُسے روٹی کھلائی چائے پلائی ، واہ پھیکے قربان جاؤں تیری اس ادا کے ، تُو نے پولیس کو بلانے کی بجائے چور کو روٹی کھلائی؟ ھاں صاحب جی چور تھا تو کیا ھوا؟ مہمان بھی تو تھا نا ، مہمان چل کر گھر آ گیا تھا کھلائے پلائے بغیر کیسے بھیج دیتا؟ بڑا روتا تھا جی معافیاں مانگتا تھا ، پہلی واری چوری کرنے آیا تھا اگر میں اُسے پولیس کے حوالے کر دیتا تو اس کا جھاکا لتھ جاتا پھر وہ پکا چور بن جاتا ، یہ جوان تو ھمارے وطن کے رکھوالے ھیں صاحب جی اور میں وطن کے رکھوالے کو چور کیسے بننے دیتا؟ وہ تو جی کار کے اندر ہی سَنَ (نقب) لگانے لگ جاتا..
نہ صاحب جی نہ ، کب تک ایسا ھوتا رھے گا؟ کار کے اندر کے چور پکڑیں گے تو باہر والوں سے نبڑ سکیں گے نا ، کار کے بھیدی ھی سَنّ (نقب) لگانے والے ھوتے ھیں ، صاحب جی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ھیں ، بندہ جینے جوگا ای نہیں رھتا ، اپنوں کے دیئے دُکھ بندے کو مار دیتے ھیں ، یہ تو جی پیروں میں بندھے گھنگروؤں کی طرح مقدر کے بُوہے پر بیٹھے ایسے وجتے رھتے ھیں جیسے وین ڈالتے ھوں ، پگ گھنگرو باندھ کر مِیرا کب تک ناچے گی صاحب جی؟ مِیرا مر جاۓ گی صاحب جی ، اب اور نہیں صاحب جی ، بس اب..
لمحے بھر کو ایسا لگا جیسے پھیکے کے اندر کوئی اور روح ھے ، سَنّ لگانے والوں کے منہ پر کیسا طمانچہ مارا تھا پھیکے نے ، پھر تُو نے جانے دیا اُس کو؟ وہ ہَتھ جوڑ کر معافیاں مانگتا تھا صاحب جی ، مَیں کیا کرتا؟ اور پھر اس نے کچھ چرایا بھی تو نہیں تھا ، صاحب جی آپ ھی تو بتاتے ھیں کہ "اللہ وی بندے کو برائی کی سزا اس وقت تک نہیں دیتا جب تک کہ وہ برائی کر نہ لے" جب اللہ نے مُجھے اُس کو چوری سے روکنے کا وسیلہ بنا دیا تو میں کون ھوتا تھا سزا دینے والا؟ آج مُجھے اپنے اور پھیکے کے بِیچ کا فرق سمجھ میں آیا ، وہ عمل کرتا تھا اور میں صرف باتیں..
پر صاحب جی میں نے اُسے کہا ایک شرط پر معاف کروں گا کہ تو آئندہ چوری نہیں کرے گا ، کہنے لگا ایم اے پاس ھوں ماں نے بڑی محنت سے لکھایا پڑھایا ھے ، نوکری نئیں ملتی ، کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ صاحب جی میں نے اسے سمجھایا ، جھلیا تعلیم کہیں نہیں جاتی ، اسےوَنڈ دے ، خرچ کر دے گا تو دُگنی ھو جائے گی ، تعلیم نے تجھے یہ عقل مت دی ھے کہ تُو چوریاں کرے؟ کم عقلا محنت مزدوری کر ، اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پال ، صاحب جی مَیں نے دو دن کا تھوڑا بہت راشن لیا اور اُسے خود اس کے کار چھوڑنے چلا گیا ، اس کی ماں کو ساری بات بتائی وہ تو جی رو رو کر انّی ھو رھی تھی ، میرا عبدالکریم چور نہیں ھو سکتا ، صاحب جی مُجھے لگا عبدالکریم کی ماں نہیں دَھرتی ماں رو رھی ھے میرا عبدالکریم چور نہیں ھو سکتا..
صاحب جی میرے سے ماں کا رونا نہیں دیکھا گیا ، میں وعدہ کر آیا ھوں کہ تیرے پُتّر کی نوکری کا انتظام کروں گا ، پھیکے ، تُو کیسے انتظام کرے گا؟ صاحب جی اللہ ایسے وعدے ضائع نہیں کرتا ، خُود ای کوئی راستہ نکال دے گا ، اب باری میری تھی مگر میرا نفس ڈگمگا گیا ، پر پھیکے ، ایسے بندے کی کیا گارنٹی؟ صاحب جی جب اس کی ماں رو رو کے انّی ھو رھی تھی نا ، اُس کا اِک اِک اتھرُو اس کے پُتّر کے دِل کو روشن کر رھا تھا ، مُنڈے کے چہرے پر چن ورگا چاننْ تھا صاحب جی ، ندامت کا نُور بڑا سوہنْا ھوتا ھے پھر اللہ بھی تو اُدھر ای موجود تھا نا وہ خُود ای نبڑ لے گا صاحب جی ، پھیکے کی اس بات نے میرے لیئے کوئی راستہ نہ چھوڑا ، فیصلہ ھو چُکا تھا ، اچھا یار ، عبدالکریم کو میرے پاس بھیج دینا مُجھے مُنشی جی کی مدد کے لیئے ایک پڑھے لِکھے بندے کی ضرورت ھے ، اپنی ماں کو بھی ساتھ ھی لے آئے پچھلے ویہڑے میں کمرہ خالی پڑا ھے اس میں رہ لیں دونوں ماں بیٹا..
آنے والے دِنوں نے ثابت کر دیا کہ پھیکے کا فیصلہ غلط نہیں تھا ، شام کو ٹیوب ویل کے پاس عبدالکریم بیٹھا محلے کے بچوں کو پڑھا رھا تھا جب پھیکے نے کہا تھا "اللہ اُدھر ای موجود تھا صاحب جی" تو میرا پورا وجود کانپ اُٹھا تھا ، وہ تو ھماری شہ رَگ سے بھی زیادہ قریب ھے ، اللہ ھی تو مجھے بتانے آیا تھا کہ مُنشی جی کے ساتھ ایک بندہ رکھنا ھے ، جب سے پھیکے نے بُکّل کا چور پکڑا تھا ، اُسے چور پکڑنے کا ہُنر آ گیا تھا..