معراج النبی ﷺ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 27, 2018 | 07:33 صبح

سفر معراج کا واقعہ جمہور علماء کے نزدیک 27 رجب کو ہوا ہے۔ اور یہ واقعہ حضور نبی کریم ؐ کے طائف شریف کے واقعہ کے بعد اور مدینہ منورہ ہجرت سے پہلے رونما ہوا۔ بعض لوگوں کے نزدیک ہجرت ایک سال اور جمہورعلماء کے نزدیک یا 3 سال پہلے رونما ہوا۔حضور نبی کریم ؐجب کعبہ شریف میں آرام فرما رہے تھے جبرائیل ؑ حاضر خدمت ہوئے اور نہایت ہی ادب سے آقا دوعالم ؐ کو بیدار فرمایا اور اللہ تعالیٰ جل شانہ مجدہ کے ارادہ پاک سے مطلع فرمایا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے ایک نورانی چادر حضور ؐ کے کندھوں پر ڈال دی اور زمرد کے نعل

ین جوتے مبارک آپ کو پہنا دیے اور یا قوت کا پٹکا حضور ؐ کی کمر میں باندھا اور زمرد کا چابک آپ ؐ کے ہاتھ میں دیا جس میں چار مروارید جڑے ہوئے تھے جو چمک رہے تھے۔
سرکار دو عالم ؐ حرم شریف سے باہر تشریف لائے باہر آپ کے لیے براق تیار تھا جس پر آپ ؐ سوار ہوئے۔ اُس کی رفتار ایسی تھی کہ جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں پر اس کا قدم پڑتا تھا۔ یہ براق حضور ؐ کے انتظار میں کوہِ صفا پر کھڑا تھا اس کے دو بڑے خوشنما اور چمکدار پَر تھے۔ بُراق کا سینہ سرخ یا قوت کی طرح چمک رہا تھا۔ اس کی پشت پر سرخ یاقوت کی زین تھی۔ اس کے سَر پر جواہرات کا تاج تھا۔ اس کی لگام زبرجد کی تھی۔ رکابیں زمرد کی تھیں اور دونوں طرف لٹک رہی تھیں۔ اور اس کی پیشانی پر لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ دائیں براق کے اسی اسی ہزار فرشتے کھڑے تھے۔
حضور نبی کریم ؐ مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے جہاں آپ ؐ کے استقبال کے لیے تمام انبیاء کرام موجود تھے۔ سب نے آپ ؐ کو مرحبا (خوش آمدید) کہا۔سرورِ دوجہاں ؐ نے وہاں پر تمام انبیاء کرامؑ کو دو رکعت نماز کی امامت فرمائی۔ سب انبیاء کرامؑ آپ کو دیکھ کر رشک فرما رہے تھے۔ (مرقع النبوت، جلد: 183,184)
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کتاب مدارج النبوت کے آخری باب تکملہ میں فرماتے ہیں کہ ہر نبی اللہ تعالیٰ جل شانہ کی کسی نہ کسی صفاتی نام کا مظہر ہے اور آقا دو جہاں حضرت محمد ؐ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے لفظ اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے مظہر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام لفظ اللہ میں اللہ تعالیٰ کے سب صفاتی نام بھی شامل ہیں۔
نیز اس آیت شریف سے ووجدک ضالًا کا معنی بھی صاف واضح ہو گیا ہے۔ ضالاً کا معنی گمراہ ہونا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرگرداں اور حیران ہونا ہے۔یعنی اے نبی ؐ اے میرے پیارے اے میرے محبوب آپؐ کو میں نے اپنی محبت میں سرگرداں اور حیران پایا تو میں نے آپ ؐ کو راہ بتائی راہ دکھائی۔
آپ ؐ کی اس وقت کیا ہی شان ہوگی، جب آپ ؐ کو مقامِ محمود عطا فرمایا جائے گا۔ جب سرورِ کائنات ؐ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوں گے۔ اور امت تمام طرف سے ناامید ہو کر صرف آپؐ کے دروازے کے آگے گری ہوئی ہوگی۔ کسی کو اُس وقت خدا تعالیٰ کے حضور میں گفتگو کی مجال نہیں ہوگی۔
آپ کتنی ہی دیر سجدہ میں رہیں گے، تو رحمت الٰہی جوش میں آجائے گی۔ حکم ہوگا: ار فارأسک یا محمد۔ اے میرے حبیب محمدؐ اپنا سرِ مبارک اٹھائیے۔ سل توتی۔ آپ سوال فرمائیں۔ آپ کو عطا فرمایا جائے گا۔ اشفع تشفع۔ آپ شفاعت فرمائیں آپ کی شفاعت قبول فرمائی جائے گی۔
ترجمہ: آپ کا رب آپ کو اے حبیبؐ اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔اور آقا ؐ کے جس امتی کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اس کو بھی دوزخ سے نکال لیں گے۔ 
اس کے بعد حضورؐ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ واپس بیت المقدس اور پھر وہاں سے مسجد حرام میں تشریف لائے۔ حضور نبی کریم ؐ جب اس سفر مبارک سے واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے ان حالات و مشاہدات سے اپنی چچا زاد بہن حضرت ابوطالب کی صاحب زادی اور سیدنا حضرت علی ؓ کی بہن حضرت ام ہانیؓ کو آگاہ فرمایا۔ اور اُنہیں یہ بھی بتایا کہ وہ صبح سویرے حرم شریف جا کر اپنی قوم سے یہ حالات بیان فرمائیں گے۔
حضرت ام ہانی نے اَزراہِ شفقت و محبت حضوؐ کی چادر کا پلو پکڑ لیا۔ اور عرض کی کہ آپ ؐ کی قوم آپ ؐ کی تکذیب کرے گی۔ اور آپ ؐ کا مذاق اڑائے گی۔ آپؐ اُن سے یہ حالات بیان نہ فرمائیں۔ حضور اکرم ؐ نے جھٹکا دے کر اپنی چادر کو چھڑایا اور حرم شریف کی طرف چل دیے۔ آپ فرماتی ہیں۔ اس وقت حضور اکرم ؐ کے قلب انور سے نور کی ایک شعاع نکلی۔ جس سے میری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ اور میں سجدہ میں گر گئی۔ جب میں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو آپؐ تشریف لے جا چکے تھے۔ میری ایک لونڈی تھی اس کا نام نبغہ تھا۔ میں نے اس کو پیچھے بھیجا۔ دیکھو حضورؐ کیا فرماتے ہیں۔ اور لوگ کیا جواب دیتے ہیں۔ جب وہ حرم شریف پہنچی تو اس نے دیکھا کہ حضور اکرمؐ کعبہ شریف اور حجراسود کے درمیان تشریف فرما ہیں۔ اور لوگ آپ ؐ کے گرد انبوہ کیے ہوئے ہیں۔ ان میں مطعم بن عدی اور ابوجہل بھی تھا۔ آپؐ نے ان کو اپنے سفر کے حالات سے آگاہ فرمایا۔ لوگوں نے ازراہِ حیرت شور مچانا شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنے سروں پر رکھ لیا۔ مطعم بن عدی نے کہا کہ ہم کیسے یہ یقین کریں کہ آپ اتنی جلدی اتنا زیادہ سفر طے کر کے آ گئے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اے مطعم تو نے اپنے بھتیجے کا دل دکھایا ہے تو نے ان کی تکذیب کی ہے۔ غور سے سن میں ان کی باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں جو کچھ آپ ؐنے فرمایا ہے وہ حق ہے، سچ ہے۔ لوگ حضرت ابو بکر صدیق ؓسے الجھ پڑے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تو اس کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ ان پر رات دن میں کئی کئی بار وحی آتی ہے۔
مشرکین نے آپؐ سے طرح طرح کے سوالات کرنے شروع کر دیے۔ حتیٰ کہ بیت المقدس کی کھڑکیوں دروازوں کی تعداد کے متعلق بھی معلوم کرنا شروع کر دیا۔ آپؐکے آگے اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس تک کے درمیانی پردے اٹھا دیے اور آپ ؐ نے ان کے ہر ہر سوال کا صحیح صحیح جواب دینا شروع کر دیا۔ ہر ہر جواب پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے کہ یہ سچ ہے۔ یہ سچ ہے۔ اور فرماتے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ہیں۔ 
یہی نبغہ حضرت ام ہانیؓ کی لونڈی کہتی ہے کہ سیدنا حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ حضرت ابو بکر ؓکا نام صدیق اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر رکھا ہے اور آسمانوں سے نازل فرمایا ہے۔اب لوگوں نے آپؐ سے راستہ کے حالات کے متعلق پوچھا اور راستہ کے قافلوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے راستہ کے قافلوں کے بالکل ٹھیک ٹھیک حالات نشانیوں کے ساتھ فرما دیے اور جب یہ قافلے واپس آئے تو انہوں نے ان واقعات کی تصدیق کی۔