جمعتہ المبارک اسپیشل۔۔۔حقوقِ نسواں قرآن و سنت کی روشنی میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 27, 2018 | 07:40 صبح

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک): صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مکتب ہے۔ عورت خواہ ماں ہو یا بہن، بیوی ہو یا بیٹی، اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق و فرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ ماں کا شکر ادا کرنا، اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔ حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق، باپ سے زیادہ ہے۔ کیوں کہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامن

ے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا، جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے۔عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ ایک طرف ان معصوموں کے ساتھ کی گئی ظلم و زیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کو جنت کی بشارت دی گئی جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہو اور لڑکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد و عورت دونوں کی سوچ کو بدلا۔ انسان کے دل و دماغ میں عورت کا جو مقام و مرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ اﷲ نے تمہیں ایک انسان (آدمؑ) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔‘‘اس بنا پر انسان کی حیثیت سے مرد و عورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ مرد اور عورت دونوں اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہ کار ہیں۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہیں۔ انسان کی ترقی کا دار و مدار علم پر ہے، کوئی بھی شخص یا قوم بغیر علم کے زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتی ہے اور مادی ترقی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے، جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت و اہمیت کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔ اسلام مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت و اخلاق و شریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمے داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عاید کی ہے، اس لیے مرد کے ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔اسلامی معاشرے نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت و احترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِین کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی (محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اس مظلوم طبقے کو یہ مژدہ جاں فزا سنایا: ’’ مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوش بُو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔‘‘

معاشرے میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ و ثروت کا مالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس دولت نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔ عورت کا نان نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمے، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نان نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمے ہیں۔عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ یعنی عورت کا حصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔ اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے، کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمے داری نہیں ہے، بل کہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے، اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دگنا حصہ ہے، مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرے میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ ازخود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ شوہر کے انتخاب میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے: شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیا جائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔ (مشکوٰۃ) اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔ اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ”معروف“ کا خیال کیا جائے، تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے : ’’ اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اﷲ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔‘‘ (النساء)