قومی سوچ کی جھلک

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 15, 2018 | 07:39 صبح

عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف مرکز‘ پنجاب‘ کے پی میں حکومت بنا رہی ہے۔ اسے کچھ لوگ عمران خان کی 22 سال کی جدوجہد کا ثمر قرار دے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے دو پارٹی سسٹم کو زمین بوس کر دیا۔ کپتان اتنے سیاسی قطب مینار اور دانش کے دریا ہوتے تو تحریک انصاف کی تشکیل کے بعد پہلے نہیں تو دوسرے الیکشن میں سیاست کے آفتاب و مہتاب بن کر نمودار ہوتے ۔ عمران خان نے 22 سال سیاست میں بہت کچھ سیکھا ہوگا جو اب اقتدار کے دوران ان کیلئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ آج وہ جو سیاسی

چوٹی سر کرتے نظرآرہے ہیں‘ وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی‘ کبھی دشمنی کی حد تک پہنچنے والے سیاسی اختلافات اور کبھی اس حد تک دوستی کہ پارٹی شناخت بھی یک جان یک قلب نظر آئے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد مرکز میں مسلم لیگ (ن) اقتدار میں زرداری کی پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی پنجاب میں لیگی حکومت کا حصہ تھی۔ اسی دور میں راہیں بھی جدا ہوئیں۔ الزام و دشنام کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا مگر مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی حکومت کو گرنے نہیں دیا۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کو پی پی کے راندہ درگاہ ہونے پر حکومت ملی تو پی پی پی نے دھرنوںمیں (ن) لیگ کی گرتی دیوار کو سہارا دیکر احسان کا بدلہ چکا دیا۔ پی پی (ن) لیگ کی محبت و نفرت پر مبنی سیاست سے عوام کو کیا ملا؟ اگر کچھ ملا ہوتا تو تحریک انصاف دو پارٹی سسٹم کو گرانے میں کامیاب نہ ہوسکتی۔ 
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیپلزپارٹی کے دور کی نسبت لیگی حکومت کا دور بہتر تھا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ‘ کراچی میں بدامنی اور پورے ملک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی مگر اقربا پروری‘ موروثی سیاست‘ کرپشن‘ رشوت کا جن بھی جھوم اور ہر کہیں گھوم رہا تھا۔ میرٹ کا جنازہ بھی دھوم سے نکلتا نظر آیا۔ نیب کے پاس بارگین کے سوا کوئی ڈھنگ کا نام نہیں تھا مگر آج حکام کو مقدمات‘ انکوائری‘ گرفتاریوں سے فرصت نہیں۔ آئندہ شاید ان کے پاس کان کھجانے اور ناک سے مکھی ہٹانے کی بھی فرصت نہ ہو۔
عمران خان کے پروگرام کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کے حریفوں اور حلیفوں کو خان کے وعدے اور دعوے ازبر ہیں۔ ان پر وہ عمل کرتے ہیں یا نہیں‘ مگر ان میں ایک بھی ایسا نہیں جس کی تکمیل ممکن نہ ہو۔ عمران نے جن مسائل کی نشاندہی کرکے عوام کو اپنی طرف مائل اور قائل کیا۔ انہیں ان مسائل کا القاء نہیں ہوا۔ یہ عمومی عوامی مسائل ہیں۔ ان سے خواص و عوام سب واقف ہیں۔ میاں نوازشریف اپنے مقدمات پر کروڑوں کے اخراجات کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ان کو نہیں معلوم تھا کہ مقدمات پر اتنے اخراجات ہوتے ہیں۔ وہ جیل میں سختیوں کا گلہ کرتے ہیں۔ بلاول لیاری سے ہار گئے۔ لیاری والوں سے انتخابی مہم کے دوران صاف پانی کی فراہمی کا وعدہ کرتے رہے۔ یہ باتیں و وعدے وہ کریں جو کبھی اقتدار میں نہ آئے ہوں۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی دوتہائی اکثریت لے گئی؟ قصہ مختصر آج تحریک انصاف پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی بدانتظامی اور ان کی طرف سے عوامی مسائل سے چشم پوشی کے باعث اقتدار میں آئی ہے۔ اب انہیں تحریک انصاف کی غلطیوں کا انتظار کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف کو یقینا باور ہوگا کہ اس نے اپنی پیشرو حکومتوں والی کارکردگی دہرائی تو اقتدار کی نیا پرائی ہو جائے گی۔ ہر عمل کا یکساں ردعمل ہوتا ہے۔
آج تحریک انصاف کی طرف سے نسبتاً بہتر رویوںکا اظہار ہو رہا ہے۔ فی الوقت کوئی رعونت نہیں۔ تکبر و غرور نہیں۔ گردن میں سریا نہیں۔ انا کی دیوار نہیں کامیابی کے پہلے دن سے عمران خان تدبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ درشت‘ سخت اورکھردرے لہجے میں دھیما پن آیا ہے۔ سیٹیں سادہ اکثریت سے بہت کم تھیں‘ وہ کمی پوری کی مگر خودداری و وقار کے ساتھ، ایک ایک سیٹ کی پارٹی اور آزاد امیدواروں کے در پر ان کے دست راست دستک دیتے رہے۔ یہ کمی پیپلزپارٹی آسانی سے پوری کر سکتی تھی مگر اس طرف گئے ہی نہیں۔ مخلوط حکومت میں شامل ہونے والے بڑے گروپ ہمہ وقت پورا منظرنامہ بدلنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں جبکہ اتنے خدشات اور نخرے چھوٹے گروپوں کے نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں عموماً قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس شورو غوغا کا طوفان لئے ہوتا ہے۔ 13 اگست کا اجلاس پُرسکون رہا۔ البتہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلی دفعہ اجلاس سے قبل قومی ترانہ بجایا گیا۔ محترم اسد اللہ غالب نے فون پر فرمایا کہ یہ اتنا پہلے تھا کہ تلاوت بھی بعد میں ہوئی۔ تبدیلی اور نئے پاکستان کا آغاز اس ’’سانحہ‘‘ سے ہوا۔ اپنی معلومات کیلئے غالب صاحب سے گزارش کی کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ تو انہوں نے اجلاس کی صدارت کرنے والے سپیکر محترم ایاز صادق اور اسمبلی انتظامیہ کی طرف اشارہ فرمایا۔
اجلاس کے پُرامن اور لڑائی مارکٹائی و افراتفری سے مبرا ہونے کی وجہ ایک روز قبل تحریک انصاف کے وفود کی ایازصادق اور پی پی پی کے قائدین بشمول خورشید شاہ کے ساتھ خیر سگالی کی ملاقاتیں تھیں۔ ان رہنمائوں کا جواب میں رویہ بھی مثبت تھا جس کا اظہار پُرامن اجلاس کی صورت میں نظر آیا۔ اس اجلاس کے دوران سیاسی رواداری کے مزید کمالات بھی دیکھنے میں آئے۔ عمران خان نے شہبازشریف‘ آصف زرداری اور بلاول سے ہاتھ ملایا۔ اس میں مشرف کی طرف سے سارک اجلاس میں ڈرامائی طورپر تقریر کے بعد اپنی نشست پر بیٹھنے سے قبل وزیراعظم واجپائی کی نشست کی طرف بڑھ کر مصافحہ کرنے کے اقدام کی مماثلت تلاش کی جا سکتی ہے۔ جس طرح واجپائی نے جنرل مشرف کے ساتھ مصافحہ میں عار محسوس نہیں کی‘ اسی طرح عمران خان کے ہاتھ کو بھی سخت مخالفین نے جھٹکا نہیں۔ قومی معاملات پر بھی قومی لیڈر شپ میں یگانگت و یکجہتی کی توقع ہے۔ ملک و قوم کیلئے اخلاص‘ نیت ہو تو اللہ کی مدد بھی آتی ہے۔ پاکستان کو سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ سعودی عرب‘ چین نے نئے حکمرانوں کو تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
قائداعظم نے 11 اگست 1947ء کو فرمایا تھا ’’سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور رشوت ہے۔ اسمبلی کو اس کے خاتمے کے اقدامات کرنا ہونگے۔‘‘ لگتا ہے قائد کا یہ پیغام آج کی اسمبلی کیلئے ہے۔ 
کچھ عرصہ قبل معروف اور سینئر پارلیمنٹیرین مہر سعید ظفر پڈھیار نے سٹیک ہولڈرز پر دست و گریباں ہونے کے بجائے ملک کو مشکل اور مسائل سے نکالنے کیلئے ایک پیج پر آنے پر زور دیا تھا۔ ان کے مطابق ایسا نہ ہونے سے ملک اس نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کے اختلاف اور انتشار میں اضافے سے خطرات و خدشات منڈلاتے نظر آتے ہیں۔آج رویوں میں تبدیلی کے امکانات روشن۔ قومی اسمبلی میں مثبت سوچ کی جھلک نظر آئی جو مزید توسیع پذیر ہونے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
آج سپیکر‘ ڈپٹی سپیکراور پرسوں وزیراعظم کا انتخاب ہونا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا دونوں حلقوں سے شکست کا ملال و جلال ،اشتعال میں بدل چکا ہے۔ یہ ان کے جمال کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ان کا غیظ و غضب پر قابو رکھنا محال ہے۔ انہوں نے پھنکارتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں کے کان میں احتجاج کی پھونک نہ پھونکی تو آئندہ کے اہم اجلاس بلکہ پورا پارلیمانی سیشن پُرامن طریقے سے چلنے کے امکانات ہیں۔ وہاڑی سے اسلم خان نے عمران خان کے نام پیغام میں کہا ہے کہ وہ ممبران اسمبلی و سینٹ سے اپنی تنخواہیں نصف کرنے پر زور دیں۔ اکثر ممبران سونے کا چمچ لیکر پیدا نہیںہوئے تو فاقہ مست بھی نہیں ہیں۔ اگر کوئی زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اسے پوری تنخواہ اور مراعات لے لینی چاہئیں۔