دیدہ ور سیاستدان اور ہونہار بروا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 04, 2019 | 18:03 شام

مجذوبوں اور دیدہ وروں کی باتیں ہر کسی کی سمجھ میںنہیں آتیں۔ غالب کے بہت سے شعر عام فہم ہیں جن کا عموماً حوالہ دیا جاتاہے۔مثلاً ....

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کیلئے غالب یہ خیال اچھا ہے

سب کہاںکچھ تو لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں

مگر اس نوعیت کے اشعار ....

نقش فریادی ہے کس کی شوخی ¿ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

ان کو سمجھنے کیلئے استاد

وں کی چوکھٹ پر حاضری دینا پڑتی ہے۔ اگر آپ کوایسے اشعار سمجھ آتے ہیں تو آپ استاد ہیں۔ہم عموماً ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری کی شاعر اورشعر شناسانہ صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ دہائیوں پہلے ایک مقتدرِاعلیٰ ہماری حکمران کلاس کے اعلیٰ فرد کا بچہ مجذوبیت کے خصائص سے متصف تھا۔ ایک روز آسمان کی طرف دیکھتے اورجھومتے ہوئے صدا لگائی: بھٹوِ گیا،بھٹوگیا۔ گھر والوں کو سمجھ نہ آئی تو کسی اللہ والے سے پوچھا، اس نے بتایا بھٹو کی خیر نہیں، کچھ عرصہ میں بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔پھر ایک روز یہی اُسی انداز میںکہہ رہا تھا: ابو گئے، ابو گئے۔ گھر والے اسکے ”بھٹو“ گئے بھٹو گئے“ کے نعرہ دیوانہ کے پس منظر میںاب کے نعرہ مستانہ کا مقصد بخوبی جانتے تھے۔ ہمارے ہاں کے سیاسی خانوادے عقل و دانش کی معراج پرہیں۔ کوئی مانے نہ مانے انکے ماننے والے انہیں اوتار تک پر پہنچائے بیٹھے ہیں۔ ان خاندانوں کے نورِ نظر گوشہ جگر بعض حوالوں سے اپنے آباﺅ اجدادسے بھی آگے ہیں۔ انکی بہت سی باتیں سمجھ نہیں آتیں،لہٰذا ذہنی پسماندگی کی تہمت کسنے کے بجائے اپنی ذہنی درماندگی اورکم مائیگی کا اعتراف کرنا ہو گا۔

میاںنواز شریف کی جے آئی ٹی اور عدالتوں کے سامنے پیشیوں پر مریم نواز تواتر سے کہتیں، روک سکو تو روک لو، نواز شریف چوتھی ، پانچویں اور چھٹی بار بھی وزیر اعظم بنیں گے۔ 4 کیسز میں میاں نواز شریف کےخلاف فیصلے آئے۔ دو میں بالترتیب دس اور سات سال قید ہوئی۔ گزشتہ ماہ میا ں نواز شریف کو سات سال قید 5 ارب جرمانہ ہواتو مریم نوازنے اسے اندھے انتقام کی آخری ہچکی قرار دیتے ہوئے کہا، اللہ کا شکر ہے فتح نواز شریف کی ہوئی۔مریم نواز کے ایسے ارشادات کی کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہے مگر اکثر لیگیوں کو انکے اقوال پر اندھا یقین ہے۔شایدوقت مریم نواز کے بیانات کی صداقت ثابت کردے۔ جس کیس میں میاں نواز شریف کو سات سال کی قید ہوئی ۔ سزا سننے کے بعد میاں نواز شریف نے دل میں بجنے والے اذیت کے ساز اور راگ درد بھری آواز میں میڈیا کے سامنے الاپتے ہوئے کہا ، میں بھی ایک انسان ہوں پتھر تو نہیں، دوسرے لمحے ذرا حوصلے کے دیپ جلاتے ہوئے گویا ہوئے، ہم تو پتھر کے انسان، ہم تو یہ دُکھ بھی سہہ گئے۔ اس پرکئی آنکھیں ڈبڈبا آئیں،مریم اورنگ زیب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر ایسے مواقع پر فلک سے آبِ بے تاب کی طرح جھڑی لگا دیتا ہے۔ سیاستدانوں سے وارفتگی اور بے اعتنائی کے اظہار کے میڈیا کے اپنے طریقے ہیں، ایک نے خبر لگائی آخر میں ا نسان ہوں پتھر تو نہیں دوسرے نے شہ سرخی جمائی ہم پتھر کے انسان ہیں۔ بہرحال نواز شریف کو مشکلات کے دریاﺅں کا سامنا ہے‘ زندگی مصائب کا قلزم بن چکی ہے۔ حل المشکلات‘مشکلات آسان کرنے پر آئے تو ایک لمحے میں تخت و تاج مقدر بن جاتاہے ۔

مریم نواز کی طرح بلاول کی کچھ باتیں بھی ہمارے جیسے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے سر سے گزر جاتی ہیں۔ جبکہ لی جنڈ ایک ایک نکتے کو سمجھ جاتے ہیں۔ پی پی پی کی قیادت پر 2015ءمیں نواز شریف حکومت کا قائم کردہ جعلی اکاﺅنٹس کیس آج قیامت ڈھا رہا ہے۔ جے آئی ٹی نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اپنے تئیں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ ا ور جعلسازیاں ثابت کردیں۔ ا س پر سپریم کورٹ نے اسے شاباش دی، اگلے روز جے آئی ٹی کی سفارش پر کابینہ نے زرداری ، فریال ، بلاول،مراد علی شاہ سمیت 172 اعلیٰ اکابرین کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے ۔ اس پر سپریم کورٹ نے حکومت اور جے آئی ٹی کی دُرگت بنا دی۔کیس بہرحال زندہ ہے۔ بینظیر بھٹو کی برسی پر باپ بیٹا حکومت پر برستے اور عمران خان پر خصوصی طور پر پلٹ کر جھپٹتے رہے۔ بی بی کا ذِکر گول رہا۔ جوش خطابت میں جو کہا مخالفین اسے عداوت کہہ رہے ہیں۔ جن کے بارے میں کہا گیا انہیں باپ بیٹے کی سخنوری میں اخلاقیات کا جنازہ نکلتا دکھائی دیا۔ تحریک انصاف کی طرف سے جواب آں غزل نہ آنا قانون فطرت کیخلاف ہوتا۔ مگر پی پی پی اشتعال اور غصے کے آخری درجے پر ہے،شاید اس درجے پر جس میں غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ بلاول نے دو بدو مقابلہ سخن طرازی میں ” کج فہم“ لوگوں کی سمجھ میں نہ آنے والا دعویٰ کردیا: والد محترم زرداری اجازت دیں تو ایک ہفتے میں عمران خان حکومت کو گرا کر حکمرانوں کو جیل بھیج سکتے ہیں۔ یہ کسی جادوئی شخصیت کا طلسماتی بیان ہوسکتاہے۔ حکومت بھی گرائیں گے اور حکمرانوں کو جیل بھی بھجوائیں گے وہ بھی محض ایک ہفتے میں بشرطیکہ ابا حضور اجازت دیں۔ جیل کس جرم میں؟ ان کی والدہ محترمہ ، مرحومہ ومغفورہ کی دو بار حکومت ضرور گری مگر وہ حکومت گرائے جانے کے بعد جیل نہیں گئیں۔ حکومت گرانے اور حکمرانوںکوجیل بھجوانے کے چمتکار مارشل لاﺅںمیں ہوتے ہیں۔ بلاول جمہوریت میں ایسا کر دکھاتے ہیں توکرشمہ ہو گا اور کرشمہ ہوتا ہی وہ ہے جو عقل سے ماورا ہو۔ مریم اور بلاول دیدہ ور سیاستدانوں کے لختِ جگر بلکہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ہیں۔ وہ اپنے آباءکی سیاست کو مقام اولیٰ تک لے جاتے نظر آتے ہیں ۔