شبِ غم

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 24, 2017 | 15:12 شام

محمد رضا شاہ پہلوی کا وہ جہاز جو ایران سے ایک شہنشاہ کو لیکر محو پرواز ہوا تھا اب اس میں وہی محمد رضا شاہ پہلوی تھا جو دربدر اور غریب الوطن تھا‘ اس نے وسیع عریض مملکت پر لگ بھگ چالیس سال حکومت کی مگر اس سلطنت میں اسے قبر کیلئے دو گز زمین دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔ انور سادات نے اسے اپنے ہاں آنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ پورے احترام کے ساتھ مہمان بنا کر رکھا، رضا پہلوی کیساتھ اپنی بیٹی بھی بیاہ دی گو انجام علیحدگی ہوا۔ رضا پہلوی اب امریکہ میں ہے اور خود کو ایران کے تخت وتاج کا وارث قرا

ر دیتا ہے، ایسی خواہش کرنے میں حرج کوئی نہیں تاہم یہ ممکنات ہی نہیں ،حیرتوں ،کرشمات اور معجزات کی بھی دنیا ہے۔ گردش ایام پلٹ سکتی ہے۔ محمد رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران نے ترقی کی منزل پر منزل طے کی۔ اس دور میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ سفر کرتے شہنشاہ کو سڑک کی ناہمواری کا احساس ہوا۔ تحقیق کے بعد ناقص سڑک کے ذمہ دار کو وہیں سڑک پر لٹا کر اوپر سے بلڈوزر گزار دیا۔ اس کے بعد رہی سہی کرپشن بھی نہ رہی۔

شاہ ایران کی ذہانت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے جنگ عظیم دوم میں ایران کو جنگ کے شعلوں سے دور رکھا۔اسی جنگ کے دوران وہ تخت وتاج کے وارث بنائے گئے۔ ایک اور واقعہ انکی ذہانت کی دلیل ہے،ایران اور برطانیہ کے درمیان 1954ء میں تیل نکالنے کا معاہدہ ہوا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی ایران سے تیل نکال رہی تھی اور یہ تیل بعدازاں یورپ اور امریکا برآمد کیا جاتا تھا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی ایران کو تیل کی رائلٹی دیتی تھی۔ ایک بار شاہ ایران شکار کیلئے جا رہا تھا‘ اسکے راستے میں پائپ لائن آ گئی‘ شاہ نے پائپ لائن کے قریب خیمہ لگوایا اور اینگلو ایرانین کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کو وہاں طلب کر لیا‘ چیف ایگزیکٹو گرتا پڑتا وہاں پہنچ گیا‘ شاہ نے اسکی طرف دیکھا اور اسے حکم دیا‘ تم فوراً یہ پائپ لائن توڑ دو‘ چیف ایگزیکٹو نے پوچھا لیکن جناب کیوں؟ شاہ نے جواب دیا‘میں تیل کا فوارہ دیکھنا چاہتا ہوں‘ انگریز چیف ایگزیکٹو نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا اور عرض کیا‘جناب اس سے بہت نقصان ہو جائیگا‘ شاہ نے کہا‘میں تمام نقصان اپنی جیب سے پورا کر دوں گا‘ تم پائپ لائن توڑو‘ ایک گھنٹہ تیل کا فوارا پھوٹنے دو اور اسکے بعد مجھے بل بھجوا دو‘ انگریز چیف ایگزیکٹو نے اس عجیب و غریب مطالبے سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن شاہ نہیں مانا۔ اسے اس بادشاہ کی خواہش جیسی خواہش قرار دیا گیا۔جو لشکر کشی کیلئے جارہا تھا، راستے میں رات کو ایک جگہ پڑائو ڈالا،اس دوران ایک ہاتھی کھائی میں جا گرا، ہاتھی کی گرتے ہوئے خوفناک چیخ بلند ہوئی۔بادشاہ نے اس منفرد آواز کی وجہ معلوم کی، اسے یہ آواز پسند آئی تھی،اس نے ایک اور ہاتھی کھائی میں پھینکنے کا حکم دیا،اسکے بعددوسرا تیسرا اور چوتھا۔ایک ایک کرکے سارے ہاتھی بادشاہ کے ذوقِ لطیف کی نذر ہوگئے۔

قصہ مختصر چیف ایگزیکٹو نے انجینئر منگوائے اور پائپ لائن درمیان سے توڑ دی۔ پٹرول کا فوارہ نکلا اور صحرا کی ریت میں جذب ہونے لگا۔ شاہ ایران ایک گھنٹہ اس فوارے کا نظارہ کرتا رہا۔ اسکے بعد اس نے چیف ایگزیکٹو سے کہا ‘تم مجھے بل بھجوا دینا‘ اسکے بعد وہ تہران روانہ ہو گیا۔ شاہ کے اس عجیب و غریب مطالبے نے اگلے دن پوری دنیا کی ہیڈ لائنز میں جگہ پالی۔ لوگوں نے سمجھا شاہ ایران پاگل ہو چکا ہے۔ اینگلو ایرانین کمپنی نے چند دن بعد شاہ کو ضائع ہونیوالے تیل کا بل بھجوا دیا۔ شاہ نے بل دیکھا اور اگلے دن کمپنی کے تمام اعلیٰ عہدیداروں کو محل میں بلوا لیا، انہیں آئل کی رائیلٹی اور کمپنی کا بل دکھا کر گویا ہوا‘ آپ نے رائیلٹی کے سمجھوتے میں یہ لکھا کہ آپکی پائپ لائن سے فی گھنٹہ اتنا پٹرول گزرتا ہے جبکہ آپ نے اسکے مقابلے میں چھ گنا زیادہ پٹرول ضائع ہونے کا بل بنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا آپ ہمیں چھ گنا کم رائیلٹی دے رہے ہیں۔ شاہ کی بات سن کر کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ وہ شاہ کو بل بھجوا کر پھنس چکے تھے۔ شاہ نے اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کیا اور کروڑوں ڈالر ہرجانہ بھی وصول کیا ۔

شاہ ایران عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کر سکتے تھے کیا‘ ایران کو دنیا میں بلند مقام تک لے گئے۔ ذہانت میں خود کو لاثانی اور عقل کل سمجھتے تھے۔ اقتدار کی مضبوطی کواپنی اہلیت اور صلاحیت کا مرہون سمجھتے تھے۔ انکی سلطنت کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا مگر جب خدا کا غضب ٹوٹتا ہے تو سب تدبیریں ذہانت منصوبے اور منصوبہ بندیاں نقش بر آب اور ہوا کے دوش پر رکھے چراغ ثابت ہوتی ہیں۔سب سے بڑا تکبر تو یہ تھا کہ اس کا باپ جس نے احمد شاہ چار کا تختہ الٹا،پہلے وزیر اعظم بنا پھر بادشاہ بن گیا،برطانیہ اور روس نے اسے جرمنی کیساتھ تعلقات قائم کرنے پر اقتدار سے الگ کرکے محمد رضا شاہ پہلوی کو بادشاہ بنوایا جس نے بادشاہ کہلوانے پر اکتفا نہیں کیا خود کو شہنشاہ کہلوایا بلکہ آریہ مہر‘ یعنی آرین نسل کے لوگوں کا بادشاہ۔ آج ہندوستان‘ پاکستان‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ اور پورا یورپ وسط ایشیا کے بیشتر علاقے اور روس میں آریائی نسل کے لوگ بستے ہیں!ایران کا سابق شہنشاہ ’’محمد رضا شاہ پہلوی‘‘ جو کہ 22سال کی عمر میں ایران کابادشاہ بن گیا ابھی اسکی عمرصرف 6 سال کی تھی کہ اس کو ولی عہد قرار دے دیا گیاتھا، وہ 38سال تک ایرا ن کا حکمران رہا۔ وہ مزاجاً سوشلسٹ اورمغرب پرست حکمران تھا،اس نے ایران میں عصر کی نماز کی ادائیگی پر پابندی لگادی تھی،وہ اپنی سلطنت کو تین ہزار سال پرانی سلطنت قرار دیتا تھا،ا س نے یہودیوں کو اسرائیل کے قیام میں مدد دی، وہ اسرائیل کیلئے روز گار کے مواقع بھی تلاش کرتا تھا۔ 1948میں اس نے ایران سے یہودیوں کو اسرائیل میں جا کر بسنے کی قانونی اجازت دے دی تھی۔ اس مقصد کیلئے اسرئیل کی ’’ موساد ‘‘کو تہران میں آفس کھولنے کی بھی اجازت دی تاکہ یہودیوں کی آبادی کو پر امن طریقے سے اسرئیل ٹرانسفر کیا جا سکے۔ اسی طرح ایران کے وزیر اعظم ’’محمد اسد‘‘ نے اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرنے کیلئے 50,000 ڈالر کی رقم وصول کی تھی،یہ وہ وجوہات تھیں جوایران کے مذہبی حلقوں کیلئے ناقابل برداشت تھیں۔ محمد رضا شاہ پہلوی ملائوں سے لڑ سکتا تھااور خوب لڑا مگر اللہ سے کون لڑ سکتاہے۔علما پر مظالم تاریخ کا حصہ ہیں امام خمینی کے بیٹے کو قتل کرایا اور خود انہیں ہیلی کاپٹر کے ساتھ باندھ کر شہر شہر عبرت کے طور پر پھرایا گیا۔ مسلمانوں کے بدترین دشمن کے ساتھ دوستی،اسکے ایجنٹوں کی آئو بھگت اور اس سے مراعات کی وصولی پر شہنشاہ ایران ملعون اور مطعون قرار پائے، تو یہی کچھ کرے اسے کیسے افلاطون قرار دیا جا سکتا ہے؟ سود پر فیصلے پر حکم امتناعی، جمعہ کی چھٹی ختم، بھارت کیساتھ کاروبار، قادیانیوں کا معاملہ طے پا چکا، اس قانون میں تبدیلی! طویل ہوتی شبِ غم کے یہ اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر توبہ کا در بند نہیں ہوا شاہ ِایران کو توشاید موقع نہیں مل سکا تھا۔