جب زندگی شروع ہو گی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 27, 2018 | 06:36 صبح

بے اختیار میں نے اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبالیا۔ ہم کچھ قدم آگے چلے تو کھردری پتھریلی سطح پر دو لڑکیاں بیٹھی نظر آئیں۔ میں دور ہی سے ان دونوں کو پہچان گیا۔ ان میں سے ایک لیلیٰ تھی۔ میری سب سے چھوٹی اور چہیتی بیٹی۔ دوسری عاصمہ تھی۔ میری بیٹی کی عزیز ترین سہیلی۔
اس وقت ماحول میں سخت ترین گرمی تھی۔ لوگوں کے بدن سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ بھوک تو پریشانی کے عالم میں اڑ چکی تھی، مگر پیاس کے عذاب نے ہر شخص کو پریشان کررکھا تھا۔ یہ دونوں بھی پیاس سے نڈھال بیٹھی تھیں۔ عاصمہ کی حا

لت بہت خراب تھی اور پیاس کی شدت کے مارے وہ اپنے بازو سے بہتا ہوا اپنا پسینہ چاٹ رہی تھی۔ ظاہر ہے اس سے پیاس کیا بجھتی۔ اس نے مزید بھڑکنا تھا۔ جبکہ لیلیٰ اپنا سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی۔
عاصمہ ایک بڑے دولتمند خاندان کی اکلوتی چشم و چراغ تھی۔ خدا نے حسن، دولت، اسٹیٹس ہر چیز سے نوازا تھا۔ ماں باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو اعلیٰ ترین اداروں میں تعلیم دلوائی۔ بچپن سے اردو کی ہوا تک نہیں لگنے دی گئی۔ عربی اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کا اتنا اثر تھا کہ بچی انگریزی انگریزوں سے زیادہ اچھی بولتی تھی۔ مگر ایسے اسکولوں میں زبان زبان دانی کے طور پر نہیں بلکہ ایک برتر تہذیب کی غلامی کے احساس میں سیکھی جاتی ہے۔ چنانچہ زبان کے ساتھ مغربی تہذیب اپنے بیشتر لوازمات سمیت در آئی تھی۔ سلام کی جگہ ہیلو ہائے، لباس میں جینز شرٹ، انگزیزی میوزک اور فلمیں وغیرہ زندگی کا لازمہ تھے۔ تاہم عاصمہ خاندانی طور پر نودولتیے پس منظر کی نہیں بلکہ خاندانی رئیس تھی، اس لیے کم از کم ظاہر کی حد تک ایک درجہ کی تہذیب و شرافت، بڑوں کا ادب لحاظ اور رکھ رکھاو¿ پایا جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے اس دوستی کو گوارا کرلیا تھا کہ شاید لیلیٰ کی صحبت سے عاصمہ بہتر ہوجائے۔
لیلیٰ سے اس کی دوستی کالج کے زمانے میں ہوئی۔ معلوم نہیں کہ دونوں کے مزاج اور کیمسٹری میں کیا چیز مشترک تھی کہ پس منظر کے اعتبار سے کافی مختلف ہونے کے باوجود کالج کی رفاقت عمر بھر کی دوستی میں بدل گئی۔ مگر بدقسمتی سے اس دوستی میں عاصمہ نے لیلیٰ کا اثر کم قبول کیا اور لیلیٰ نے اس کا اثر زیادہ قبول کرلیا۔
لیلیٰ میری بیٹی ضرور تھی، مگر بدقسمتی سے وہ میرے جیسی نہ بن سکی۔ مجھ سے زیادہ وہ اپنے سب سے بڑے بھائی، جمشید کی لاڈلی تھی۔ وہی بھائی جو میرا پہلونٹی کا بیٹا تھا اور اسی کی طرح میدان حشر میں کہیں بھٹک رہا تھا۔ ایک طرف بڑے بھائی کا لاڈ پیار اور دوسری طرف عاصمہ کی دوستی۔ یہ عاصمہ اکلوتی ہونے کے ناطے خود والدین کی لاڈلی اور ناز و نعم میں پلی بڑھی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج حشر کی اس خواری میں سے اسے اپنا حصہ وصول کرنا پڑرہا تھا۔ میرے زمانے کی بیشتر اولادوں کو ان کے والدین کے لاڈ پیارنے برباد کرکے رکھ دیا تھا۔
اولاد ہر دور میں والدین کو محبوب رہی ہے۔ میرے زمانے میں یہ عجیب سانحہ رونما ہوا تھا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے عشق میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ خود ان کے کھلونے بن گئے۔ شاید یہ کم بچوں کا اثر تھا۔ پہلے ہر گھر میں آٹھ دس بچے ہوتے تھے۔ اس لیے والدین ایک حد سے زیادہ بچوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ مگر میرے زمانے میں والدین کے دو تین ہی بچے ہوتے تھے اور ان کی زندگی کا واحد مقصد یہی بن گیا تھا کہ اولاد کے لیے سارے جہاں کی خوشیاں سمیٹ کر لادیں۔ وہ ان کے ناز نخرے اٹھاتے۔ ان کی تربیت کے لیے ان پر سختی کرنے کو برا سمجھتے۔ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کو اپنا مقصد بنالیتے۔ ان کو بہترین تعلیم دلوانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیتے۔ یہاں تک کہ ان کے بہتر مستقبل کی خاطر ان کو دوسرے ملکوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے اور آخر کار یہ بچے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک میں سیٹ ہوجاتے۔ یہ نہ بھی ہو تب بھی نئی زندگی میں ماں باپ کا کردار بہت محدود تھا۔ لیکن ماں باپ اس سب کے باوجود بہت خوش تھے۔
ہم ذرا قریب پہنچے تو عاصمہ کی نظر مجھ پر پڑی۔ اس نے لیلیٰ کو ٹہوکا دیا۔ لیلیٰ نے گھٹنوں سے سر اٹھایا۔ اس کی نظر میری نظر سے چار ہوئی۔ ان آنکھوں میں ایسی بے بسی، وحشت اور دکھ تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ اٹھی۔۔۔ بھاگ کر مجھ سے لپٹ گئی اور پوری قوت سے رونے لگی۔ اس کی زبان سے ابو۔۔۔ ابو کے سوا کچھ اور نہیں نکل رہا تھا۔ میں بڑی مشکل سے خود پر ضبط کررہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ اگر روتی رہی تو کہیں میرے ضبط کا بند بھی میرا ساتھ نہ چھوڑ دے۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرکر کہا:
”بیٹا چپ ہوجا۔ میں نے تجھے بہت سمجھایا تھا نا۔ اس دن کے لیے جینا سیکھو۔ دنیا سوائے ایک فریب کے اور کچھ نہیں۔“
”ہاں آپ ٹھیک کہتے تھے۔ مگر میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔“، یہ کہتے ہوئے اس کی سسکیوں کی آواز اور بلند ہوگئی۔
”مجھے یاد ہے ابو آپ نے اس سے کیا کہا تھا۔“، عاصمہ کی جگہ لیلیٰ نے جواب دیا۔
”آپ نے کہا تھا کہ بیٹا تم میری بیٹی کی سہیلی ہو۔ دیکھو ایسی سہیلی بننا جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں خدا کو ناراض کردو اور کسی بری جگہ تم دونوں کو ساتھ رہنا پڑے۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم دونوں ایک دوسرے کو الزام دو کہ تمھاری دوستی نے مجھے برباد کردیا۔“
آخری جملہ کہتے ہوئے لیلیٰ پھر رونے لگی۔ اس کے ساتھ عاصمہ بھی سسکیاں بھرنے لگی۔ میں نے گردن گھماکر صالح کو دیکھا جو اس عرصے میں خاموش کھڑا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ کوئی امید افزا بات کہہ سکے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ کہنے لگا:
”عبد اللہ! ویسے تو ہر فرد کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کا عمل اگر رائی کے دانے کے برابر تھا تب بھی اس کے نام? اعمال میں موجود ہوگا۔ ہر عمل کو آج پرکھا جائے گا۔ نیت، اسباب، محرکات، حالات، عمل اور اس کے نتائج، ایک ایک چیز کی جانچ ہوگی۔”مجھے زیادہ پریشانی اپنے بیٹے کی ہے۔“، میں نے جواب دیا۔
اس جواب میں میرے سارے اندازے، امیدیں اور اندیشے جمع تھے۔ میں نے مزید تبصرہ کیا:
”اسے پیسے کمانے، گاڑی، بنگلے اور دولت مند بننے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق جس کو لگ جائے، اسے کسی بھی برے حال میں پہنچاسکتا ہے۔ اس کے بعد اکثر لوگ حلال حرام اور اچھے برے کی تمیز کھوبیٹھتے ہیں۔اگر کسب حرام سے بچ بھی جائیں تو اسراف، غفلت، نمود و نمائش، بخل، تکبر اور حق تلفی جیسی برائیاں انسان کو احتساب الٰہی کی اس عدالت میں لاکھڑا کرتے ہیں جہاں نجات بہت مشکل ہوجاتی ہے۔“
میری اس بات کا جواب غیر متوقع طور پر عاصمہ نے دیا:
”یہ ساری باتیں لیلیٰ مجھے بتاتی تھی۔ اس نے آپ کی کچھ کتابیں بھی مجھے پڑھنے کے لیے دی تھیں۔ مگر مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی۔ میری بدقسمتی کہ میری ساری زندگی غفلت، دنیا پرستی، فیشن، نمود و نمائش، اسراف اور تکبر میں گزرگئی۔ مجھ پر حسین نظر آنے کا خبط سوار تھا۔ میں نے لاکھوں روپے زیور، کپڑوں اور کاسمیٹکس میں برباد کردیے۔ مگر غریبوں پر میں کبھی کچھ نہ خرچ کرسکی۔ کبھی کیا بھی تو اس کو بہت بڑا احسان سمجھا۔ حالانکہ اللہ نے ہمیں بہت مال و دولت عطا کیا تھا۔یہ کہہ کر ایک دفعہ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ لیلیٰ افسردہ لہجے میں بولی:
”اس کے امی ابو بہت برے حال میں ہم سے ملے ہیں۔ ان کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہوگا۔“
پھر وہ مجھے دیکھ کر بولی:
”ابو میرے ساتھ کیا ہوگا؟“، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
ان دونوں کی باتوں سے میرا دل کٹ رہا تھا۔ مجھ میں اب مزید ان کے ساتھ رہنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ صالح کو میری حالت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ اس نے ان دونوں سے مخاطب ہوکر کہا:
”عبد اللہ کو اب یہاں سے رخصت ہونا ہوگا۔ آپ دونوں یہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کیجیے۔ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔“
یہ کہہ کر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے لے گیا۔
میدان حشر کا ماحول انتہائی سخت اور تکلیف دہ تھا۔ ایک طرف ماحول اور حالات کی سختی تھی تو دوسری طرف لوگوں کو یہ اندیشہ کھائے جارہا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ مایوسی اور پریشانی کے علاوہ لوگوں میں شدید غصہ بھی تھا۔ یہ غصہ اپنی ذات پر بھی تھا اور اپنے لیڈروں اور گمراہ کرنے والے رہنماو¿ں پر بھی تھا۔ چنانچہ جو لیڈر اپنے پیروکاروں کے ہاتھ آجاتا وہ بے دریغ اس کی پٹائی شروع کردیتے۔ یہ گویا عذاب سے قبل ایک نوعیت کا عذاب تھا۔
ایسے تماشے اس وقت میدان حشر میں جگہ جگہ ہورہے تھے۔ پیروکار اپنے لیڈروں کو، اصاغرین اپنے اکابرین کو، عقیدت مند اپنے علما اور درویشوں کو بے دردی سے پیٹ رہے اور اپنا غصہ نکال رہے تھے۔ مگر اب کیا فائدہ! البتہ اس طرح پریشان اور افسردہ حال لوگوں کو ایک طرح کا تماشہ دیکھنے کو ضرور مل رہا تھا۔
ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے گرمی کی حدت اور شدت بہت تیزی سے بڑھتی جارہی تھی۔ مجھے اس کا اندازہ اس بڑھتے ہوئے پسینے سے ہوا جو لوگوں کے جسم سے بہہ رہا تھا۔ لوگوں کے جسموں سے پسینہ قطروں کی صورت میں نہیں بلکہ دھار کی شکل میں بہہ رہا تھا، مگر زمین اتنی گرم تھی کہ یہ پسینہ تپتی زمین پر گرتے ہی اس میں جذب ہوجاتا۔ پیاس کے مارے لوگوں کے ہونٹ باہر نکل آئے تھے اور وہ کسی تونس زدہ اور پیاسے اونٹ کی طرح ہانپ رہے تھے، مگر پانی کا یہاں کیا سوال؟
کچھ ہی دیر میں سربراہ مملکت آگ اور کیلوں والے کوڑے کھاکر زمین بوس ہوچکے تھے۔ جس کے بعد فرشتوں نے انہیں ایک لمبی زنجیر میں باندھنا شروع کیا جس کی کڑیاں آگ میں دہکا کر سرخ کی گئی تھیں۔ سربراہ مملکت بے بسی سے تڑپ رہے اور رحم کی فریاد کررہے تھے، مگر ان فرشتوں کو کیا معلوم تھا کہ رحم کیا ہوتا ہے۔ وہ بے دردی سے انہیں باندھتے رہے۔ جب ان کا پورا جسم زنجیروں سے جکڑ گیا تو اتنے میں کچھ اور فرشتے آگئے۔ پہلے فرشتے ان سے بولے:
”ہم نے سربراہ مملکت کو پکڑ لیا ہے۔ تم جاو¿ اور ان کے سارے حواریوں، درباریوں، خوشامدیوں اور ساتھیوں کو پکڑلاو¿ جو اس بدبخت کے ظلم اور بدعنوانی میں شریک تھے۔“
یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر بے اختیار میرے لبوں سے ایک آہ نکلی۔ میں نے دل میں سوچا:
”کہاں گیا ان کا اقتدار؟ کہاں گئے وہ عیش و عشرت کے دن؟ کہاں گئے وہ عالیشان محل، مہنگے ترین کپڑے، بیرونی دورے، شاندار گاڑیاں، عظمت ، کروفر اور شان و شوکت؟ آہ! ان لوگوں نے کتنے معمولی اور عارضی مزوں کے لیے کیسا برا انجام چن لیا۔“
صالح بولا:
”یہ سب ظالم، کرپٹ اور عیاش لوگ تھے جن کی ہلاکت کا فیصلہ دنیا ہی میں ہوچکا تھا۔ تاہم یہ ان کی اصل سزا نہیں۔ اصل سزا تو جہنم میں ملے گی۔ جس طرف فرشتے انہیںلے جارہے ہیں وہاں سے جہنم بالکل قریب ہے۔ اسی مقام سے انہیں حساب کتاب کے لیے لے جایا جائے گا جہاں ان کی دائمی ذلت اور عذاب کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ پھر انھیں دوبارہ بائیں طرف لایا جائے گا۔ جہاں سے گروہ در گروہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
 آخر کار ایک صدا بلند ہوئی:
”الرحمن کے بندے کہاں ہیں؟ پروردگار عالم کے غلام کہاں ہیں؟ اللہ جل جلالہ کو اپنا معبود، اپنا بادشاہ اور اپنا رب ماننے والے کہاں ہیں؟ وہ جہاں بھی ہیں خداوند سارے جہان کے رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں۔۔۔“
یہ سننا تھا کہ میں کچھ دیکھنے کی کوشش کیے بغیر ہی صالح کے برابر میں سجدہ ریز ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔