نویں اور دسویں محرم کے روزوں کی فضیلت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 19, 2018 | 07:38 صبح

لاہور(امیر افضل اعوان):قمری تقویم میں محرم الحرام کا مہینہ بہت زیادہ عظمت وحرمت کا حامل ہے، جب سے اللہ پاک نے کائنات تخلیق کی تب سے ہی محرم کو خصوصی درجہ حاصل رہا، محرم حرمت والے چار مہینوں میں شامل ہے اور تمام انبیاء کرام کی شریعتوں میں اس کی حرمت و تعظیم مقدم رکھی گئی، عرب میں قبل از اسلام محرم کوصفر اول کہا جاتا تھامگر اسلام نے اس مہینہ کو محرم کے نام سے موسوم کرنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ محترم قرار دیا، عاشورہ، عشر سے نکلاہے جس کے معنی دس کے ہیں، یوم عاشور کے لفظی معنی دسویں کے دن کے ہیں،

چونکہ یہ محرم الحرام کے مہینہ کا دن ہے، اِس لئے اِس کو محرم الحرام کی دسویں کا دن کہتے ہیں، یوم عاشور، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ مکرمہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا، اِسی دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اِس دن روزہ رکھتے تھے اور یہودی بھی ، ایک حدیث میں آتا ہے ’’ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ مدینہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ عاشور کے دن روزہ رکھتے ہیں، آپ ؐنے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ بہتر دن ہے اسی دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوں سے نجات دی تھی، اس لئے حضرت موسیٰ ؑنے اس دن روزہ رکھا تھا، آپ ؐنے فرمایا کہ ہم تمہارے اعتبار سے زیادہ موسیٰ ؑکے حقدار ہیں، چنانچہ آپ ؐنے اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا‘‘صحیح بخاری، جلد اول، حدیث1926، رسولِ کریم ؐکا دستور تھا کہ آپ ؐمکہ مکرمہ کے لوگوں کے اْن کاموں سے اِتفاق فرماتے تھے جو ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے اچھے کام ہوتے تھے، اِسی بنا پر آپ ؐحج کی تقریبات میں بھی شرکت فرماتے تھے اوراِسی اْصول کی بنا پریوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔

قبل از ہجرت اسلام میںعاشورہ محرم کے روزے کا حکم نہ تھا، اس دورانیہ کے بعد اوررمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے قبل ہمارے نبی ؐ عاشورہ کا روزہ رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے تھے ، ایک حدیث مبارکہ میں مرقوم ہے ’’حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا اس کے بعد اسلام میں رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آنحضرت ؐنے مسلمانوں سے ارشاد فرمایا کہ اب عاشورہ کا روزہ تمہاری مرضی پر ہے دل چاہے تو رکھو نہ چاہے تو نہ رکھو‘‘صحیح بخاری، جلد دوم، حدیث1681،عاشورہ کے روزہ کے حوالہ سے ایک روایت میں ذکر ملتا ہے ’’ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ؐنے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ! اس دن کی یہودی اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے راوی نے کہا کہ ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ ؐ وفات پا گئے‘‘صحیح مسلم، جلد دوم، حدیث172، آپ ؐ نے ہمیشہ دوسروں کی بالخصوص یہود ونصاریٰ کی مماثلت سے منع فرمایا ، یہاں نویں تاریخ کے روزہ کا ارادہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھاکہ اِس طرح مشابہت ختم ہو جائے گی کہ وہ صرف عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں اور ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھ کر دور کر لیا کریں گے اور مشابہت کی وجہ سے نیکی بند نہیں کریں گے بلکہ اِس میں اضافہ کرکے فرق کر دیا کریں گے۔

اسلامی لحاظ سے ہمیں بخوبی علم ہے کہ حرمت والے مہینوں میں عبادات کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے اسی طرح ان ایام میں برائی کا وبال و عذاب بھی بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ محرم کے روزوں کو رمضان کے بعد سب سے زیادہ افضل قرار دیا گیا ہے، اس حوالہ سے حدیث پاک میں مرقوم ہے ’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐسے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز سب سے افضل ہے؟ اور رمضان کے مہینے کے بعد کون سے روزے سب سے افضل ہیں؟ آپ ؐنے فرمایا کہ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز(تہجد)ہے اور رمضان کے مہینے کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں‘‘صحیح مسلم، جلد دوم، حدیث262،اسی طرح ایک اور حدیث میں منقول ہے ’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نبی کریم ؐکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے، رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت کن روزوں کی ہے ؟ فرمایا اللہ کا مہینہ جسے تم محرم کہتے ہو‘‘سنن ابن ماجہ، جلد اول، حدیث1743، بلاشبہ ماہ محرم میں نفلی روزے رکھنا بڑی فضیلت اور سعادت کی بات ہے ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں ماہ محرم سے مراد یوم عاشورہ ہے جس کے روزے کی بہت زیادہ فضیلت منقول ہے اور اس کی تائید اس کے بعد آنے والی حدیث سے بھی ہوتی ہے، اس حدیث میں ماہ محرم کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف کی گئی ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ نسبت تخصیص کی بناء پر نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہو کہ صرف محرم ہی اللہ کا مہینہ ہے بلکہ چونکہ تمام مہینے اللہ ہی کے ہیں اس لیے اس موقع پر بطور خاص اللہ کی طرف محرم کے مہینہ کی نسبت اس ماہ مبارک کے شرف و فضیلت کے اظہار کے طور پر ہے۔

’’حضرت ابوقتادہؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا جو شخص یوم عاشورہ (یعنی محرم کی دس تاریخ) کا روزہ رکھے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گز شتہ سال کے تمام گناہ معاف فرمادے‘‘ جامع ترمذی، جلد اول، حدیث736، اس باب میں حضرت علی ؓ، محمد بن صفییؓ، سملہ بن اکوع ؓ، ہند بن اسمائؓ، ابن عباس ؓ، ربیع بنت معوذ بن عفرا ؓ اور عبداللہ بن زبیرؓسے بھی روایت ہے، جب کہ عاشورہ کے روزہ سے گذشتہ سال کے تمام گناہ معاف کئے جانے کے حوالہ سے صحیح بخاری ، جلد2حدیث 252میں بھی مذکور ہے، معاشرہ میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ محرم کی اہمیت در اصل واقعہ کربلا، حضرت حسین ؓ اور ان کے رفقاء کی شہادت کے سبب ہے ، بلاشبہ میدان کربلا میں اہل بیت پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اور اس کا جتنا بھی دکھ و افسوس کیا جائے کم ہے مگر محرم کی اہمیت و فضیلت قبل از اسلام بھی تھی جس کا ذکر اولین سطور میں موجوود ہے اور ویسے بھی واقعہ کربلا آپ ؐ کے وصال کے تقریبا 50سال بعد پیش آیا مگر محرم کی حرمت کے باب میں بہت سی روایات اس سے قبل موجود ہیں اور دین کی تکمیل بھی آپ ؐ کی حیات مبارکہ میں کردی گئی تھی ، اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ’ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا۔ تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا‘‘ سورہ المائدہ، آیت3، یہاں دین کے کامل ہونے سے مراد شریعت کے تمام اصول اور جزئی احکام و ہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ اور نمونہ بھی جو رسول اللہ ؐنے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو زندگی کے کسی بھی پہلو میں خواہ وہ معاشرتی پہلو ہو یا معاشی ہو یا سیاسی ہو، باہر سے کوئی بھی اصول اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لحاظ سے اسلام میں موجودہ مغربی جمہوریت، اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم یا اور کسی ازم کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔

اسلامی تعلیمات کے برعکس ہمارے معاشرہ میں محرم کے حوالہ سے بہت سے ابہام اور بدعات پائی جاتی ہیں ، جیسے کہا جاتا ہے کہ عاشورہ کے روزہ سے 60سال کے نماز، روزہ اور عبادت کا ثواب ملتا ہے، عاشورہ کے روزہ سے اللہ پاک 10ہزار فرشتوں کی عبادت کا ثواب عطا فرماتا ہے، عاشورہ کے روزہ سے ہزار حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کا ثواب ملتا ہے، عاشورہ کا روزہ رکھنے سے 10ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہے، عاشورہ والے دن کسی مومن کی افطاری ساری امت محمدیہ کی افطاری کے مماثل ہے،یوم عاشورہ کے روز یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے سے ہر بال کے عوض جنت میں مراتب بلند ہوتے ہیں، عاشورہ کے روزہ سے عمر بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے اور یہ روزہ انبیاء کے روزہ کے برابر ہے، دسویں محرم کی شب بیداری ساتویں آسمانی مخلوق کے مماثل عبادت ہے، عاشورہ کے دن کسی کو ایک گھونٹ شربت پلانا ایسے ہے گویا تمام عمر اللہ کی کوئی نافرمانی نہ کی ہو، یوم عاشور کو اہل بیت کے مسکینوں کو کھانا کھلانے والا پل صراط سے بجلی کی طرح گزر جائے گا اس کے علاوہ بھی ہمارے درمیان بہت سی رسومات پائی جاتی ہیں جن کے حوالہ جات بھی دیئے جاتے ہیںمگر امام ابن جوزی حضرت انس بن مالک ؓ کے حوالہ سے موسیٰ الطویل کی ان روایات کو موضوع قرار دیتے ہیں ، اس کا ذکر الموضوع لابن الجوزی199/2اور201/2میں مذکور ہے، حافظ ابن حبان المجروحین243/2، علامہ برہان الدین حلبی الکسف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث، ص433کے علاوہ علامہ سیوطی اور حافظ ابن عراق اللالیی المصنوعۃ فیی الا حادیث الموضوعۃ للسیوطیی110/2اور وتنزیہ الشریعۃالمرفوعۃ لا بن عراق151/2میں امام جوزی کے بیان کی تائید کرتے ہوئے ان روایات کو موضوع قرار دیتے ہیںاور علمائے اہل سنت اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ ان روایات کا دین سے کوئی تعلق نہیں جب کہ ان روایات کا ذکر کرنا یا انہیں تحریر و تقریر میں لانا بھی مناسب نہیں، یہاں ان روایات کا ذکر کرنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ان موضوع روایات کو لائق اعتناء نہ سمجھا جائے ۔