انسانوں پر پُراسرار اور غیر انسانی تجربات اور صبر کا پھل

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 25, 2018 | 08:22 صبح

فلموں اور قصے کہانیوں میں آپ نے خوفناک جنگلوں کا ذکر ضرور سنا ہو گا لیکن رومانیہ میں سینکڑوں ایکڑ پر محیط ایک حقیقی جنگل موجود ہے جسے دنیا کا خوفناک اور ڈراونا ترین جنگل قرار دیا جاتا ہے۔ آسیب زدہ جنگل کہلانے والا

Hoia Baciu Forest

سات سو تیس ایکڑ پر محیط ہے۔ دنیا بھر میں مشہور ہے کہ اس میں جانے والے اول تو واپس ہی نہیں آئے اور جو واپس آئے ہیں، ان کے جسموں پر عجیب طرح کے زخم اور نشانات پائے گئے اور ان کی حالت قابلِ رحم تھی۔ مقامی لوک داستانوں کے مطابق اس کا نام ایک چرواہے

کے نام پر رکھا گیا ہے جو اپنی 200 بھیڑوں کے ساتھ جنگل میں گیا اور پھر نہ وہ خود لوٹا اور نہ اس کی بھیڑیں۔ یہاں پائے جانے والے درختوں کے تنے حیران کن انداز میں خم کھاتے ہوئے اوپر بڑھتے ہیں۔ اندھیرے میں یہ درخت عجیب و غریب مخلوقات جیسے نظر آتے ہیں۔ جنگل کے عین درمیان میں ایک گول میدان ہے جس میں لمبے درختوں کی بجائے محض چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میدان میں خلائی مخلوق اترتی ہے۔ رات کے وقت گھنے درختوں کے نیچے تاریکی میں اچانک روشنی کے ہالے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ان میں خوفناک درندے دوڑتے بھاگتے اور دھاڑتے نظر آتے ہیں۔


1960ءمیں رومانیہ کے بڑے سائنسدان الیگزنڈر فائف ہویا بسوئس جنگل کی حقیقت جاننے کیلئے سرگرداں رہے۔ انہوں نے کئی تجربات کئے۔ یہ جنگل شاید اپنے عجیب و غریب حادثات کی وجہ سے الیگزنڈر نے چنا تھا۔ 1993ءمیں اس کی موت کے بعد ان کے لگ بھگ سارے ایکسپیرمنٹکے تمام نوٹس جلے ہوئے پائے گئے۔ رومانیہ کی پولیس تو یہ بھی کہتی ہے کہ شاید انہوں نے ہی اپنے سارے نوٹس جلا دیئے تھے۔ ان کے جو بھی نوٹس رومانیہ سرکار کے ہاتھ لگے تھے ان سبھی میں ایک بات مشترک تھی۔ سبھی کے آخری پیج پر یہ لکھا تھا

: Ignorance is Bliss but Knowledge is Dangerous
(لاعلمی نعمت اور زیادہ علم خطرناک ہے) حال ہی میں رومانیہ حکومت نے الیگزنڈر کے ادھورے تجربات میں سے ایک تجربہ دُہرانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے اسے تین ایسے رضاکاروں کی ضرورت تھی جو خود کو اس تجربے کی تکمیل کیلئے پیش کریں۔ حکومت نے اخبارات میں اور آن لائن کئی اشتہارات دیئے۔ جن میں رضاکاروں کو خاصی رقم دینے کی پیشکش کی گئی۔ کوئی رقم کے لالچ اور کوئی مہم جوئی کے شوق میں دستیاب ہو گیا۔ تجربہ کیلئے ہر پیشکار یا رضا کار کو ایک ایک رات اس جنگل میں گزارنی تھی۔
پہلی رات پہلے پیشکار کو جنگل میں بھیجا گیا۔ اسے ایک ٹیپ ریکارڈر دیا گیا جس میں اس نے اپنے مشاہدات ریکارڈ کرنے تھے۔ اس کی ریکارڈنگ کچھ اس طرح سے تھی۔ ”رات کے بارہ بجے ہیں اور میرے خیال سے میں جنگل کا کافی سارا حصہ پار کر چکا ہوں۔ یہاں اتنا گھُپ اندھیرا ہے کہ مجھے کچھ نہیں نظر آ رہا۔ گھنے پیڑوں کی وجہ سے چاند کی روشنی بھی یہاں نہیں پہنچ رہی۔ رات کے ڈھائی بجے ہیں میں بس پانی پینے کے لیے رُکا ہوں اور مجھے کسی کے قدموں کی آواز آ رہی ہے۔ رات کے ساڑھے تین بجے ہیں۔ اب میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ ان لوگوں نے میرے پیچھے کچھ تو چھوڑا ہے۔ صبح کے چار بجے ہیں۔ میں بس کسی بھی طرح یہاں سے نکلنا چاہتا ہوں“۔
صبح ہوتے ہی انتظامیہ کو جنگل کے باہر پہلا رضاکار آتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے انتظامیہ نے طے شدہ معاوضہ ادا کیا۔ وہ یوں تو ٹھیک تھا مگر کافی ڈرا ہوا تھا اور ذہنی حالت بھی دگرگوں تھی تاہم ایک دو ہفتے کے علاج کے بعد وہ ٹھیک ہو گیا۔
دوسری رات دوسرے کو بھیجا گیا۔ اُسے ٹیپ ریکارڈر کے علاوہ تھرمل وژن کیمرہ دیا گیا۔ اس کیمرے میں سے گرم چیزیں اورنج اور ٹھنڈی چیزیں کافی نیلی نظر آتی ہیں۔ اس کی ریکارڈرنگ کچھ اس طرح تھی۔


”رات کے بارہ بجے ہیں۔ سچ کہوں تو اس جنگل میں کچھ زیادہ ہی اندھیرا ہے۔ پتہ نہیں انہوں نے مجھے یہ کیمرہ کیوں دیا ہے۔ اس سے رات کے اندھیرے میں دیکھنے میں تو کچھ مدد نہیں ہو رہی۔ رات کا ایک بج رہا ہے سب کچھ نیلا نیلا سا لگ رہا ہے۔ ہاں درمیان میں کچھ اورنج سپاٹس دِکھتے ہیں۔ جو جنگل کے عام پنچھی اور جانور ہیں۔ رات کے ڈھائی بجے ہیں۔ یہاں میرے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔ وہ انسان ہے یا جانور، یہ تو نہیں پتہ۔ میں نے اسے کیمرے سے دیکھا ہے۔ رات کے ساڑھے تین بجے ہیں مجھے لگتا ہے وہ چیز میرا پیچھا کر رہی ہے۔ مجھے بس۔۔ بس۔۔ بس مجھے بس یہاں سے جلدی سے نکلنا ہے“۔۔۔ صبح ہوتے ہی افسروں کو والنٹیئر آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کو انعام کی رقم تو مل گئی لیکن اس کی دماغی حالت کچھ زیادہ ہی بگڑ گئی تھی۔ اتنا کہ اسے چار سے پانچ ماہ کے لیے پاگل خانے میں رکھنا پڑا۔ وہ ہر پل بے حد ڈرا رہتا تھا۔
تیسری رات تیسرے مہم جو کو بھیجا گیا۔ اسے ٹیپ ریکارڈر کے علاوہ ایک نائٹ وژن کیمرہ دیا گیا۔ اس سے رات میں سب کچھ صاف صاف دِکھتا ہے۔ اس کی ریکارڈنگ کچھ اس طرح تھی۔ ”رات کے ایک بجے ہیں۔ یہ کیمرہ تو بڑے کمال کی چیز ہے۔ مجھے اتنے اندھیرے میں بھی سب کچھ صاف صاف دِکھ رہا ہے۔۔۔ رات کے دو بجے ہیں مجھے لگتا ہے میں نے کسی کو دیکھا ہے۔ میں بس یہاں دو منٹ کے لیے رُکا تھا کہ مجھے جھاڑی کے پیچھے سے دو آنکھیں دِکھیں۔ کوئی چیز میرا۔۔ میرا۔۔ کوئی چیز میرا پیچھا کر رہی ہے۔۔۔ رات کے تین بجے ہیں۔ وہ دس فٹ کی دوری پر ٹھیک میرے سامنے کھڑا ہے۔ وہ انسان تو بالکل نہیں ہے۔ وہ مجھے ہی دیکھ رہا ہے۔ مجھے نہیں.... مجھے نہیں لگتا میں بچ پاﺅں گا۔ کاش کسی طرح....“۔
صبح ہوتے ہی انتظامی افسروں کو وہ رضاکار تو نہیں ملا۔ مگر اس کا یہ ٹیپ ریکارڈر جنگل کے ٹھیک درمیان میں پڑا ملا۔ اس کے فوراً بعد حکومت نے اس تجربے کے سارے ثبوت مٹا دیئے اور اس جنگل کو بھی سیل کر دیا گیا۔ اس جنگل کے چاروں طرف لمبی تاریں بچھا دی گئیں تاکہ کوئی اندر نہ جا سکے اور کوئی جانور یا کوئی چیز باہر نہ آ سکے۔


ایک ایسا ہی انسانوں پر دِلکُش تجربہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران روسی خفیہ ایجنسی ”کے۔ جی۔ بی“ نے کیا۔ اسے ٹاسک سونپا گیا کہ کوئی ایسا طریقہ تلاش کیا جائے جس کے استعمال سے محاذ جنگ پر فوجیوں کو آسانی سے جگائے رکھا جا سکے۔ اس مقصد کیلئے 1940ءکے آخر میں ایک تجربہ کیا گیا اس کیلئے 5 جنگی قیدیوں کو ایک ایئر پروف کمرے میں بند کر دیا گیا۔ اس تجربے کی بھینٹ چڑھنے والوں کو جگانے کے لیے کمرے میں ایک مخصوص گیس چھوڑ دی گئی اور ان افراد کا مشاہدہ کرنے کیلئے اس کمرہ میں کیمرے، مائیکرو فونز اور پانچ انچ موٹی شیشے کی کھڑکی سے بھی مدد لی گئی۔ ان پانچ افراد کی ضروریات کیلئے اس کمرے میں کتابیں، پانی اور خشک خوراک کی کافی مقدار بھی رکھ دی گئی، چونکہ اس تجربہ کا مقصد انہیں جگانا تھا۔ اس لیے وہاں بیڈ موجود نہیں تھے۔ اس تجربے کا آغاز تو بہتر تھا جس میں وہ تمام افراد اس گیس کی وجہ سے جاگتے اور نارمل بھی رہے۔ انہیں کہا گیا تھا کہ اگر وہ 30 دن تک جاگتے رہے تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا۔
پہلے پانچ دن کے دوران سب کچھ نارمل رہا۔ یہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق باتیں کرتے رہتے، کتابیں پڑھتے اور کھاتے پیتے رہے لیکن چھٹے روز ان کے دماغ میں عجیب و غریب تغیرآنے شروع ہو گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے پر الزام لگانا شروع کر دیا کہ آج ہم تمہاری وجہ سے اس جگہ پر پہنچے ہیں۔ ان کی آوازیں بھی بدلنا شروع ہو گئیں جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کا دماغ اب نارمل طریقے سے کام کرنا بند کر رہا ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے سے بات کرنا بند کر کے زور زور سے چلانے لگے۔ 9 دن کے بعد ایک قیدی اس طرح زور سے چلانے لگا کہ اس کی ووکیل کارڈ (مخرکی رگ) پھٹ گئی۔ اب وہ بالکل آواز نہیں نکال سکتا تھا۔ ان قیدیوں نے چیمبرمیں موجود کتابوں کو پھاڑ پھاڑ کر دور پھینکنا شروع کر دیا اور ان کتابوں کے صفحوں سے چیمبر کی کھڑکی کو ڈھک دیا تاکہ باہر کے لوگ ان پر نظر نہ رکھ پائیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ قیدی تقریباً پاگل ہو چکے تھے۔ کچھ دیر کے بعد یہ آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ کتابوں کے صفحوں سے کھڑکی ڈھکے جانے کے بعد ان قیدیوں پر نظر رکھنا ممکن نہیں تھا اور نہ ہی چیمبر سے باہر ان کی کوئی آواز آ رہی تھی۔ باہر سے کچھ فوجیوں کو چیمبر کے اندر بھیجا گیا تاکہ وہ پتہ لگائیں کہ کہیں یہ لوگ مر تو نہیں گئے۔ اندر جا کر فوجیوں نے دیکھا کہ وہ قیدی زندہ تھے اور سانس لے رہے تھے۔ لیکن بالکل چپ چاپ زمین پر لیٹے تھے۔ اسی طرح دو ہفتوں کا وقت گزر گیا اور صورتِ حال مزید بھیانک ہو گئی، کیونکہ اب ان لوگوں نے خود کو نوچنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے خود کا گوشت کھا کر اپنے آپ کو زخمی کرنا بھی شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے جسم سے جگہ جگہ سے گوشت ختم ہو کر ان کی ہڈیاں واضح طور پر نظر آنے لگیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر ریسرچرز بھی حیران رہ گئے اور انہوں نے سوچا اس سے بُرا اور کیا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ان قیدیوں کو اب آزاد کر دینا چاہیے۔ انہوں نے مائیکرو فون میں اعلان کیا کہ ہم آپ لوگوں کو آزاد کر رہے ہیں اور چیمبر کو کھول رہے ہیں لیکن اگر آپ دروازے کے سامنے آئے اور کسی پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو آپ کو فوراً گولی مار دی جائے گی۔ یہ سن کر چیمبر میں کچھ دیر خاموشی رہی مگر پھر ایک قیدی کی آواز آئی کہ اب ہم یہاں سے باہر نکلنا نہیں چاہتے اور ہمیشہ کے لیے یہیں رہنا چاہتے ہیں۔ دیکھا جا رہا تھا کہ ہر قیدی کی جلد سے گوشت کا مکمل صفایا ہو چکا تھا اور یہ محض ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہے تھے۔ کیونکہ انہوں نے دیا جانے والا کھانا بالکل چھوڑ دیا تھا اور اپنے آپ کو ہی کھانا شروع کر دیا تھا۔ انہیں زبردستی چیمبر سے باہر نکالنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے پانچ فوجیوں پر حملہ کر کے انہیں شدید زخمی کر دیا۔ اب یہ قیدی کسی بھی صورت چیمبر سے نکلنے کو تیار نہیں تھے۔ کچھ دن مزید گزرنے کے بعد دو قیدی مر گئے۔ لیکن باقی تین قیدیوں کو زبردستی اس چیمبر سے باہر نکال لیا گیا۔ یہ تینوں قیدی حیرت انگیز طور پر سرجنز کی منت سماجت کر رہے تھے کہ انہیں جاگنے دیا جائے اور کوئی بھی نشہ آور دوا یا انجکشن دے کر بے ہوش کرنے یا سلانے کی کوشش نہ کی جائے۔ لہٰذا ان تینوں قیدیوں کے جسم کی بے ہوش کئے بغیر سرجری کی گئی اور ان کے جسم کے جو حصے کھال اُترنے سے نظر آنے لگے تھے۔ انہیں جوڑ کر پٹی کر دی گئی۔

اسی دوران ایک قیدی خون کی کمی سے سرجری کے دوران ہی مر گیا۔ اس کے جسم کی 9 ہڈیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں جبکہ دوسرا قیدی جس نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا تھا اور اب بول نہیں سکتا تھا وہ سرجری کے دوران زور زور سے ہنسنے لگا۔ جیسے اسے اپنے جسم کو تکلیف میں دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہو۔ سرجری مکمل ہونے کے بعد اس نے سرجنز پرغصہ کرنا شروع کر دیا اور اشاروں سے کہا کہ وہ اس کے جسم کو مزید کاٹیں اور اسے مزید تکلیف دیں کیونکہ اسے اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ زمین پر لیٹ کر سو گیا اور اسی دوران اس کی موت ہو گئی۔ جبکہ آخری قیدی نے وہاں موجود فوجی کی بندوق اٹھا کر دو سرجنز پر گولی چلا دی جس سے وہ موقع پر ہی مر گئے۔ اس سے پہلے کہ یہ قیدی مزید لوگوں کو نقصان پہنچاتا اسے فوراً گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد تجربے کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی اس لیے تجربہ ادھورا رہا اور چیمبر بند کر دیا گیا اب ایک اور تجربہ ملاحظہ فرمائیے، جو ان لوگوں کے لئے دلچسپی کا سامان ہے جو خاموش طبع تنہائی پسند اور سناٹے میں سکون محسوس کرتے ہیں۔
دنیا کا یہ خاموش ترین مقام اور مکان مائیکرو سوفٹ کمپنی نے ڈیزائن کیا ہے۔ امریکی ریاست منیسوٹا میں واقع یہ کمرہ اس قدر خاموش ہے کہ یہاں داخل ہو کر آپ اپنے دل کی دھڑکن، سانس اور پیٹ کے اندر کھانے کے ہضم ہونے کی آوازیں تک سن سکتے ہیں۔ بازو پر جڑے دو بال الگ ہوتے ہیں تو ان کی دھماکا سے مشابہ آواز بھی سنی جا سکتی ہے۔ اس کمرے کی دیواروں کو تین فٹ موٹے ساونڈ پروف فائبر گلاس، اسٹیل اور پتھر سے بنایا گیا ہے۔ یہ باہر سے آنے والی 99.99 فیصد آوازیں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ اس کمرے کو ’ان ایکوئک‘ یعنی بے گونج یا بے آواز کمرے کا نام دیا گیا ہے۔ اس کمرے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے جاننا ضروری ہے کہ ایک انسان صفر ڈیسیبل تک دھیمی آواز سن سکتا ہے۔ ڈیسیبل کسی آواز کے حجم کی مقدار ناپنے کا کم ترین پیمانہ ہے۔ اس کمرے میں موجود (یا غیر موجود) آواز کی پیمائش منفی 9.4 ڈیسیبل ہے یعنی انسانی کان کے ہلکی ترین آواز سننے کی صلاحیت سے بھی کم ہے۔ اس کمرے میں جا کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟ اس بات کو جانچنے کے لیے مائیکرو سافٹ کے ایک انجینئر گوپال پرپدی نے اس کمرے کے اندر کچھ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔


جب ہم کسی خاموش مقام پر جاتے ہیں تب بھی ہمارا کان فطرت کی کئی آوازیں سن رہا ہوتا ہے، دور پانی بہنے کی آواز، ہوا کی آواز، پرندوں کی چہچہاہٹ، آپ کے قدموں کی آواز لیکن یہ کمرہ ان تمام آوازوں سے پاک ہے۔ انجینئرگوپال پریدی کے مطابق جب وہ اس کمرے میں داخل ہوئے اور دروازہ بند ہوا، تو پس منظر کی تمام آوازیں یکدم غائب ہو گئیں اور گہرا سکوت طاری ہو گیا۔ چند سیکنڈز بعد ہی انہوں نے اپنا دماغ سن ہوتا محسوس کیا اور اس کے بعد انہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی غار میں سفر کر رہے ہوں۔ ساتھ ہی انہیں خدشہ محسوس ہوا کہ ان کا جسم بے جان ہو گیا ہے اور وہ حرکت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر وہ مزید کچھ دیر اس کمرے میں ٹھہرتے تو انہیں ڈر تھا کہ شاید ان کا دماغی توازن ٹھیک نہ رہ پاتا۔
ایک اور حیران کن تجربہ امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی نے کیا۔ اس تعلیمی ادارے کے سات آٹھ سال کے بچوں کی کلاس میں ٹیچروالٹر مشل جاتے ہیں۔ بیس بچوں کی کلاس ہے‘ ہر ایک کے سامنے ایک مارش میلو کینڈی رکھ دی جاتی ہے‘ بچوں سے کہا جاتا ہے جو اسے پندرہ منٹ بعد کھائے گا، اسے ایک اور مل سکتی ہے۔ ٹیچر اس کے بعد باہر چلا گیا جبکہ مانیٹرنگ کیلئے ٹیم کلاس روم میں تھی۔ والٹر کے جاتے ہی 8 بچوں نے کینڈی منہ میں ڈال لی جبکہ کچھ بچے اس پر ڈسکس کرنے لگے اور پندرہ منٹ انتظار کیا۔ ان بچوں کو کلاس روم میں ہی مانیٹر نہیں کیاگیا، ان کا بائیو ڈیٹا لے لیا گیا اور 30سال بعد ان بچوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں تو 12 بچے جن کی عمریں اب چالیس برس سے زیادہ تھیں وہ کامیاب زندگی گزار رہے تھے جبکہ وہ 8 لوگ جنہوں نے فٹافٹ کینڈی کھا لی تھی اب ناکامی کی دلدل میں پھنسے تھے‘ ان میں سے کوئی جیل میں تھا، کسی پر اسی نوعیت کے کیس چل رہے تھے اور کوئی نشہ کی لت میں مبتلا ہو چکا تھا۔ اس تجربے سے مشل نے جو بھی اخذ کیا اس کے آخر میں ایک فقرہ تھا ”جو پندرہ منٹ صبر نہیں کر سکتا وہ زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتا“۔ گویا اس تجربے سے جانچ کر صبر کو کامیابی کی کلید قرار دیا گیا۔ والٹر نے جو بات 40 سال کے طویل ترین مدت کے تجربہ سے ثابت کی وہ قرآن پاک واضح کر چکا ہے ”ان اللہ مع الصابرین“ ’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ اور جس کے ساتھ اللہ ہو اس کی بے مثل کامیابی کسی بھی شک سے بالاتر ہوتی ہے۔


ہمارے ہاں سب سے زیادہ بے صبری شاید سیاست میں پائی جاتی ہے۔ 1988ءسے لے کر 99ءتک بے صبری اور عدم برداشت کے باعث میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو دو‘ دو بار اقتدار کی مدت پوری نہیں کرسکے تھے۔ ہمارے دوست اور کولیگ حفیظ قریشی وسیع المطالعہ ہیں موصوف میاں نواز شریف کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں مگر عمران کیلئے بھی گرم گوشہ نہیں ہے ورنہ ایسے لیگی بھی ہیں جو نواز شریف کو تاحیات وزیراعظم اور تاقیامت رہبر دیکھنا چاہتے ہیں۔ محترم حفیظ قریشی نے عمران خان کے اقتدار میں آنے کے حوالے سے حافظ شیرازی کے ”دیوان حافظ“ سے فال نکالی تو یہ شعر سامنے آیا:
روزے برسی بوصل حافظ
گر طاقت انتظار داری
مفہوم: حافظ تو بھی وصل یار سے ہمکنار ہو سکتا ہے، بشرطیکہ تجھ میں انتظار کا مادہ ہو۔
عمران خان میں انتظار کا مادہ ہے یا نہیں اس پر بھی عمومی یک رائے نہیں ہے۔ دوسری سیاسی اشرافیہ میں انتظار کا کتنا مادہ ہے، کتنا صبر ہے۔ صبر ہی سے اجر وابستہ ہے‘ صرف سیاست ہی میں نہیں زندگی کے دیگر امور اور معاملات میں بھی۔ صبر کے پھل کو میٹھا بھی اسی لیے کہا جاتا ہے۔