جب زندگی شروع ہو گی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 26, 2018 | 07:05 صبح

صالح نے دوبارہ اشارہ کیا اور منظر ختم ہوگیا۔ لیکن ساتھ ہی ھما کی ہر امید کو بھی ختم کرگیا۔ صالح نے اسی سفاک اور قاتل لہجے میں سختی کے ساتھ کہا:
۔۔”تم نے دیکھا! تمھاری زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ریکارڈ کرلیا گیا ہے۔ تو جاو¿ ھما بی بی اپنے پیر صاحب کو ڈھونڈو جو تمھیں بخشواسکتے ہیں اور جن کے سامنے اللہ تعالیٰ بھی۔۔۔ “
صالح نے جملہ تو ادھورا چھوڑدیا، مگر ھما کے الفاظ دہراتے وقت اس کے لہجے میں جو غضب آگیا تھا، اس سے میں خود دہل کر رہ گیا۔ ھما بھی بری طرح خوف زدہ

ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ صالح کچھ اور کہتا وہ روتی چیختی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی۔
ہم چلتے چلتے اس دروازے کے قریب آگئے جہاں سے حشر کا راستہ تھا۔ میں نے صالح سے دریافت کیا:
”کیا اب ہمیں واپس میدان حشر جانا ہوگا؟“
”کیوں کیا وہاں جانے کا شوق ختم ہوگیا؟“، اس نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔
”نہیں ایسی بات نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہاں آگیا ہوں تو اپنے گھر والوں سے مل لوں۔ جب ہم شروع میں یہاں آئے تھے تو تم مجھے براہ راست اوپر لے گئے تھے۔ اب تو میرے گھر والے امت محمدیہ کے کیمپ میں پہنچ چکے ہوں گے؟“
میں اس سے مزید کچھ اور دریافت کرنا چاہتا تھا، مگر گفتگو کرتے ہوئے ہم کیمپ کے کافی نزدیک پہنچ چکے تھے۔ یہ خیموں پر مشتمل ایک وسیع و عریض بستی تھی۔ اس بستی میں لوگوں کے کیمپ مختلف زمانوں کے اعتبار سے تقسیم تھے۔ بعض خیموں کے باہر کھڑے ان کے مالکان آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ یہیں مجھے اپنے بہت سے ساتھی اور رفقا نظر آئے جنہو ں نے دین کی دعوت میں میرا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ان کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جوانیاں، اپنے کیرئیر، اپنے خاندان اور اپنی خواہشات کو کبھی سر پر سوار نہیں ہونے دیا تھا۔ ان سب کو ایک حد تک رکھ کر اپنا باقی وقت، صلاحیت، پیسہ اور جذبہ خدا کے دین کے لیے وقف کردیا تھا۔ اسی کا بدلہ تھا کہ آج یہ لوگ اس ابدی کامیابی کو سب سے پہلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا وعدہ دنیا میں ان سے کیا گیا تھا۔
یہیں ہمیں امت مسلمہ کی تاریخ کی بہت سی معروف ہستیاں نظر آئیں۔ ہم جہاں سے گزرتے لوگوں کو سلام کرتے جاتے۔ ہر شخص نے ہمیں اپنے خیمے میں آکر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کی دعوت دی، جسے صالح شکریہ کے ساتھ رد کرتا چلا گیا۔ البتہ میں نے ہر شخص سے بعد میں ملنے کا وعدہ کیا۔
ہم ایک دفعہ پھر چلنے لگے اور چلتے چلتے ہم ایک بہت خوبصورت اور نفیس خیمے کے پاس پہنچ گئے۔ میرے دل کی دھڑکن کچھ تیز ہوگئی۔ صالح میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:
”ناعمہ نام ہے تمھاری بیوی کا؟“
میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔ صالح نے انگلی سے اشارہ کرکے کہا:
”یہ والا خیمہ ہے۔“
”کیا اسے معلوم ہے کہ میں یہاں آرہا ہوں؟“، میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
”نہیں۔“، صالح نے جواب دیا۔ پھر ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا:
”یہ ہے تمھاری منزل۔“
میں ہولے ہولے چلتا ہوا خیمے کے قریب پہنچا اور سلام کرکے اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اندر سے ایک آواز آئی جسے سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز تر ہوگئی۔
”آپ کون ہیں؟“
”عبدا للہ۔۔۔ “
میری زبان سے عبد اللہ کا نام نکلتے ہی پردہ اٹھا اور ساری دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔ اگر روشنی تھی تو صرف اسی ایک چہرے میں جو میرے سامنے تھا۔ وقت، زمانہ، صدیاں اور لمحے سب اپنی جگہ ٹھہرگئے۔ میں خاموش کھڑا ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا رہا۔ ناعمہ کا مطلب روشن ہوتا ہے۔ مگر روشنی کا مطلب یہ ہوتا ہے یہ مجھے آج پہلی دفعہ معلوم ہوا تھا۔
ہم جب آخری دفعہ ملے تھے تو زندگی بھر کا ساتھ بڑھاپے کی رفاقت میں ڈھل چکا تھا۔ جب محبت؛ حسن اور جوانی کی محتاج نہیں رہتی۔ مگر ناعمہ نے اپنی جوانی کے تمام ارمانوں اور خوابوں کو میری نذر کردیا تھا۔ اس نے جوانی کے دنوں میں بھی اس وقت میرا ساتھ دیا تھا جب میں نے آسان زندگی چھوڑ کر اپنے لیے کانٹوں بھرے راستے چن لیے تھے۔ اس کے بعد بھی زندگی کے ہر سرد و گرم اور اچھے برے حال میں اس نے پوری طاقت سے میرا ساتھ دیا تھا۔
”اور اب؟“، ناعمہ نے سوال کرتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔ شاید وہ تخیل کی آنکھ سے جنت کی اس دنیا کا تصور کررہی تھی جو اب شروع ہونے والی تھی۔
”ہم نے خدا کا پیغام عام کرنے کے لیے اپنی فانی زندگی لگادی اور اب بدلے میں خدا جنت کی ابدی زندگی کی کامیابی ہمیں دے گا۔“
یہ کہتے ہوئے میں نے بھی آنکھیں بند کرلیں۔ میرے سامنے اپنی پر مشقت اور جدو جہد سے بھرپور زندگی کا ایک ایک لمحہ آرہا تھا۔ہم ایک دفعہ پھر میدان حشرمیں کھڑے تھے۔ بچوں سے متعلق ناعمہ کا سوال میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میں نے صالح سے کہا:
”میں اپنے ان دونوں بچو ںسے ملنا چاہتا ہوں جو یہاں موجود ہیں۔“
”اس کا مطلب ہے کہ تم ذہنی طور پران دونوں سے ان کے برے حال میں ملنے کے لیے تیار ہوچکے ہو۔“
”میں آج قیامت لگ رہی ہوں نا۔“
عاصمہ نے ایک ادا سے جسم کو لہرایا اور کسی ماڈل کے انداز میں دو قدم چل کر لیلیٰ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ لیلیٰ اپنی درسگاہ کے احاطے میں درختوں کے سائے تلے بچھائی گئی ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی جوس پی رہی تھی اور اس کے سامنے اس کی عزیز سہیلی عاصمہ لہراتی بل کھاتی اپنے نئے کپڑوں کی نمائش کررہی تھی۔ لیلیٰ خاموش رہی تو عاصمہ نے دوبارہ کہا:
”میں کیسی لگ رہی ہوں؟“
”تم کپڑے پہن کر بھی برہنہ لگ رہی ہو۔“
لیلیٰ نے بے نیازی سے جوس کا ایک سپ لیتے ہوئے اس کے لباس پر تبصرہ کیا۔
”وہاٹ۔۔۔ “
”سچ کہہ رہی ہوں۔ یہ لان کا پرنٹ ہے تو بہت شاندار، مگر اس سے تمھارا پورا جسم جھلک رہا ہے۔ آستینیں تو تم پہننے کی عادی ویسے ہی نہیں ہو۔ مگر اس لباس میں تو بازووں کے ساتھ تمھارے کندھے بھی برہنہ نظر آرہے ہیں۔“
”ویل ویل میڈم! ڈونٹ کنڈم می۔ میں نے آپ کے کہنے سے یہ ایسٹرن ڈریس پہنا ہے۔ ورنہ مجھے صرف جینز اور ٹی شرٹ پسند ہے۔“
”یہ آدھی بات ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ٹائٹ جینز اور چست سلیو لیس ٹی شرٹ۔“
”اور کیا یہاں برقعہ پہن کر آوں؟“، عاصمہ نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
”عاصمہ یہاں لڑکے بھی پڑھتے ہیں۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔“، لیلیٰ نے اسے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔
”سوری یہ تمھاری رائے ہے، ورنہ ذمہ داری تو ان لڑکوں کی ہے کہ اپنی نظریں جھکاکر رکھیں۔ کوئی مولوی انھیں یہ کیوں نہیں بتاتا۔“
”یقیناً یہ ان کی ذمہ داری ہے، مگر کیا ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟“
لیلیٰ کے اس جواب پر عاصمہ تنک کربولی :
”کیا ہم اپنی پسند کے کپڑے بھی نہ پہنیں؟ خوبصورت بھی نظر نہ آئیں؟“
”ضرور پہنو اور ضرور خوبصورت لگو، مگر حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے۔“
”بس کرو یار۔ یہاں ایک میڈم شائستہ ہیں جو ہر وقت ایسے ہی موڈسٹی پر لیکچر دیتی رہتی ہیں اور دوسری تم ہو۔ سنو! ان کے نقش قدم پر مت چلو ورنہ ان کے جیسا ہی انجام ہوگا۔ ساری زندگی گھر بیٹھی رہ جاو گی موڈسٹ بن کر۔ تمھاری بھی کہیں شادی نہیں ہوگی۔“
”عاصمہ بری بات ہے۔ اتنی اچھی اور نیک ٹیچر ہیں اور تم ہو کہ ان کا مذاق اڑا رہی ہو۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تو اس میں ان کی موڈسٹی کا نہیں ہمارے معاشرے کا قصور ہے۔“
”ارے چھوڑو یار یہ فضول بحث۔ یہ دیکھو یہ جو لان کا پرنٹ میں نے پہنا ہے وہ سپر ماڈل ایکٹریس چمپا نے لانچ کیا ہے اور اس کا ڈیرائنز بھی انٹرنیشنل شہرت کا مالک ہے۔ پتہ ہے ایک سوٹ بیس ہزار کا ہے۔ تم نے تو ایگزیبیشن میں جانے سے انکار کردیا تھا، مگر وہاں بڑا مزہ آیا۔ آخر میں فیشن شو بھی تھا۔ اسی میں چمپا نے یہ اسٹائل پہنا تھا جسے میں نے کاپی کیا ہے۔ تم بھی بنوالو۔“
”اور اس کے بعد میرے گھر والے مجھے گھر سے نکال دیں گے۔“
”ڈونٹ وری۔ میں تمھیں اپنے ہاں رکھ لوں گی۔ ویسے بھی تمھارے گھر والے بڑے آرتھوڈوکس ہیں۔ تمھاری امی۔۔۔ ناعمہ آنٹی ہیں تو اچھی خاتون، بس ہروقت نصیحت کرتی رہتی ہیں اور تمھارے ابا۔۔۔ عبداللہ انکل۔۔۔ وہ تو لگتا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام پھیلاکر ہی دم لیں گے۔ ایسے ہی تمھارے باقی بہن بھائی ہیں، بس ایک تمھارے بڑے بھائی جمشید ہی ڈھنگ کے ہیں۔ اسی لیے شاید تم لوگوں کے ساتھ نہیں رہتے۔“
”ابا تو سمجھتے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ ان سے دور ہوچکے ہیں۔ اور بقول امی کے انھوں نے مجھے بھی خراب کردیا ہے۔“
”کیا خرابی ہے تم میں۔ تم تو مجھے ویسے ہی بڑی نیک لگتی ہو۔“
”میں اور نیک؟ بس مارے باندھے بچپن کی عادت کی بنا پر روزہ نمازکرلیتی ہوں۔ باقی میں تمھارے ساتھ رہ کر تمھارے جیسے ہی کام کرتی ہوں۔“
”مگر یہ تو دیکھو کہ میرے ساتھ مزہ کتنا آتا ہے۔ پچاس برس کی زندگی ہے۔ خوب کھاو پیو اور انجوائے کرو۔“
میدان حشر میں غضب کی گرمی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ نجانے لوگ پیاس سے زیادہ پریشان ہوں گے یا پھر اس اندیشے سے کہ کہیں انھیں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں نہ پھینک دیا جائے۔ میں اسی خیال میں تھا کہ صالح کی آواز کانوں سے ٹکرائی:
”عبداللہ! تیار ہوجاو۔ میں تمھیں تمھاری بیٹی سے ملوانے لے جارہا ہوں۔“
(جاری ہے)