لاہور میں مقصود کا لا کی پھانسی کا بڑا شہرہ ہوا۔ اسے ایک قتل کیس میں سزائے موت ہوئی۔ اس پر عمل سے قبل اسکی ماں نے میڈیا کا سہارا لیا۔ اخبارات نے زوردار طریقے سے معاملہ اٹھایا۔ ضعیف اور ناتواں خاتون کا کہنا تھا، اس کا بیٹا سائیکل چور ہے جس پر قتل ڈال دیا گیا۔ ان دنوں مقصودکالا پر قتل کا مقدمہ درج کرنیوالا ایس ایچ او بھی کسی کیس میں جیل چلا گیا، اس نے بھی کالے کو قتل کیس میں ناجائز ملوث کرنے کا اعتراف کیا ۔ بات میڈیا کے ذریعے اعلیٰ ایوانوں تک جاپہنچی۔ معراج خالد نگران وزیر اعظم، فاروق خان لغار
ی صدر تھے، رحم کی اپیل منظور کر لی گئی۔ جی ہاں! رحم کی اپیل کی منظوری سے مقصود کالا کو انصاف مل گیا۔ رہائی سے قبل حالات نے پلٹا کھایا جو بھی ہوا ،اسکی پھانسی کی سزا بحال ہو گئی۔ یہ دنیا نہیں تو پاکستان کا شاید پہلا کیس ہو جس میں صدر کی معافی کے باوجود ملزم کو پھانسی لگ گئی ہو۔ زندگی کی آخری رات جب پھانسی کے انتظامات مکمل ہو گئے تو اس نے جیل کے عملے کو بتایا، میں اس قتل کیس میں ملوث نہیں تاہم میں نے ایک اور قتل کیا ہے۔ میں نے راہ چلتی ایک خاتون کو ڈکیتی میں مزاحمت پر مار ڈالا تھا،جس کا میرے اور اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں۔ اس خاتون کے لواحقین غریب اور شاید غیرتمند بھی تھے ،انہوں نے پوسٹ مارٹم کرایا نہ پرچہ درج کرایا۔یقیناً مجھے اُس جرم میں پھانسی ہورہی ہے۔ خود کو سیاسی مقبولیت کی معراج پر سمجھنے والوں کے مزاج بھی عموماً اوجِ ثریا پر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اقتدار میں ہوں تو سراپاتکبر غرور اور رعونت ہوتے ہیں، اقتدار کا نشہ اقتدار سے باہر آ کر بھی برقرار رہتا ہے تاآنکہ نشہ ہرن کرنیوالی کوئی افتاد پڑ جائے ۔ رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے بقول اینٹی ناکوٹکس فورس 15 کلو ہیروئن برآمد ہوئی ۔ دس کلو سے زیادہ برآمدگی کی سزا موت ہے۔ راناصاحب پر اتنی مقدار میں ہیروئن انتقاماً ڈالی گئی ہے تو اس سے بڑی سفاکیت اور بے رحمی نہیں ہو سکتی۔ سمگلنگ زمینوں جائیدادوں پر قبضے جیسے کام تن تنہا نہیں پورے کے پورے گینگ اور سرکاری اداروں کے کرپٹ عناصر کے ساتھ مل کرکئے جاتے ہیں۔ان عناصر کی شہ پرمافیا شیر بنے ہوتے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ حکومت کے بعض حامیوں کی طرف سے دبے لفظوں جبکہ اپوزیشن کھل کر کہہ رہی ہے ’’رانا ثناء اللہ پر منشیات ڈال کر انتقام لیا جا رہا ہے۔ ایف آئی آر کو بھی بنیاد بنایا جا رہا ہے جس میں کہا گیا، پوچھنے پر رانا ثناء نے بتایا منشیات والا بیگ ڈکی میں ہے۔واقعی چوری چھپے کام کرنیوالا ایسا ہرگز نہیں کہہ سکتا۔رانا صاحب نے ایسا کہا یا نہیں البتہ تکبر اور طاقت کا زعم میں ایسی دھج سے بیان بعید بھی نہیں۔ ’’سب کو پتہ ہے اے این ایف کس کے ماتحت ہے‘‘ کچھ لوگوں کی طر ف سے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری فوج کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے ۔ اے این ایف اگر فوج کے ماتحت ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے۔ رانا ثناء اللہ بے قصور ہوئے تو ان کا بال بھی بیکا نہیں ہو گا‘ وہ سرخرو ہو کر عزت و وقار کے ساتھ جیل سے باہر آئینگے۔ ان کانام قبضوں ،قتلوں، سانحہ ماڈل ٹائون اور رابرٹ فارم کی جعلی رجسٹریوں کی تحقیقات کی آڑ میں 67 مربع اراضی کا مدعا ہی غائب کرنے میں بھی لیا جاتا ہے۔ دنیا کے سامنے کیس کوئی ہوتا اور قدرت کی طرف سے سزاکسی اور معاملے میں دی جارہی ہوتی ہے۔یہ بھی کوئی اٹل حقیقت نہیں کہ مصائب و مشکلات کی زد میں آنیولوں نے کوئی جرم ہی کیا ہو ایسا قدرت کی طرف سے آزمائش اور امتحان بھی ہوسکتا ہے۔