اتحاد نصیب دشمناں....بہتر ہے اپوزیشن صلح کرے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 27, 2019 | 18:18 شام

رحمت شاہ آفریدی پاکستان کی سیاست کا بڑا کرداررہے ہیں۔ بڑے مالدار کھلے دل والے ، پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو امریکہ دورے پر تھیں ان دنوں بھی نیوکلیئر پروگرام کے باعث پاکستان پابندیوں کی زد میں تھا، کئی دفاعی معاہدوں کی تکمیل سے امریکہ نے انکارکردیا۔ محترمہ امریکہ سے خالی نہیں آنا چاہتی تھیں، بلیک مارکیٹ سے اسلحہ خریدنا پڑا ، ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا تھا۔ 65 ءکی جنگ کے” ہیرو“ جہازوں F-86 کے پرزہ جات بھی سیٹھ عابد کے ذریعے بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے تھے، ہم آج

نیوکلیئر پاور بھی بلیک مارکیٹ کے صدقے سے ہیں۔ بلیک مارکیٹ میں ادھارنہیں چلتا، بینظیر فون کرنے پر 2 ارب روپے مالیت کے ڈالر اگلے روزآفریدی نے امریکہ پہنچا دئیے گئے۔ محترمہ واپس آئیں تو حکومتی خزانے انکو کو ادائیگی سے قبل محترمہ کی حکوت ٹوٹ گئی۔نواز شریف حکومت میں رحمت شاہ آفریدی کو ہیروئن سمگلنگ کیس میں سزائے موت ہوئی۔ میں ان سے اپنی کتاب ”موت سے زندگی کی طرف“ کے لیے ان کی زندگی میں آزمائشوں کے بارے جاننے کے لیے ملا تھا۔ ان کا کہنا تھا، حکومت انہیں بینظیر بھٹو اور زرداری کیخلاف استعمال کرنا چاہتی تھی، ”مجھے کہا گیا بینظیر اور آصف کو منشیات کے بزنس میںاپنا پارٹنر ہونے کا بیان دیں مگر میں نے جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا“۔آفریدی مزید کہتے ہیں۔” محترمہ کے پہلے دور میں اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد لائی تھی۔ حکومت بچانے کے لیے 17 لوگوں کی کمی تھی جو پورے نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے انہیں کہا بے فکر ہو جائیں۔ نواز شریف لوگوں کو خرید نہیں سکے گا، اسے پیسہ بنانا آتا ہے لگانا نہیں آتا۔ فاٹا کے آٹھ ایم این ایز میں سے سات میں نے وزیراعظم بینظیر کے ساتھ کھڑے کر کے تحریک عدم اعتماد ناکام بنا دی“۔ 
آج میاں نواز شریف قید آشیانی اور جیل مکانی ہیں، آصف زرداری بھی آج اس گھر میں ہیں جس میں رہنے کا فخریہ اظہار یہ کہہ کر کرتے رہے ۔” میرا گھرایوان اقتدار ہے یا جیل“۔ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی ہوئی جس کے اعلامیہ میں نواز شریف اور زرداری کو قانونی حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قانونی حقوق ؟ 
بلاشبہ اپوزیشن بھاری بھرکم ہے۔اس کے سربراہ کی شخصیت کا سیاسی طور پر بھاری بھرکم ہونا ضروری ہے ۔ شہباز شریف، مریم، بلاول اور زرداری کے سوا کوئی اور سوٹ ہی نہیں کرتا۔ مگر یہ مقدمات اور سزاﺅں کی زد میں ہیں چنانچہ قرعہ مولانا فضل الرحمن کے نام نکلا،چلو بھاری بھرکم سراپا تو ہے۔ حکومتوں کے خلاف تحریکوں کیلئے نوابزادہ نصراللہ خاں ”فتنہ پرور“ ہوا کرتے تھے۔ اتحاد بنانے اور حکومتیں گرانے میں ان کومہارت تھی۔ اب مولانا کی دستار پر یہ ہُما بٹھا دیا گیا ہے۔ مولاناکی سربراہی میں اے پی سی کا جو نتیجہ نکلا، اس حوالے سے ایک قصہ یاد آ گیا۔ جنگ کے لیے انگریزوں نے بیشمار بھرتیاں کیں لوگوں کواپنی خدمات فوج کے لیے پیش کرنے کوکہا۔ ایک ہرکارہ شام چوراسی جا پہنچا۔ ان کے سر پنچ نے کہا۔” اگرلڑائی میں نوبت ہماری ضرورت پر آگئی ہے تو انگریز کو کہو صلح کر لے“۔ بہتر ہے مولاناکو اپنا امام اور مرشدبنانے کے، اپوزیشن حکومت سے صلح کر لے،مگر حکومت ہی من کر نہیں دے رہی۔ 
اے پی سی کامیابی کی معراج کو پہنچی یا ناکامی کی اتھاہ پستی میں جاگری ؟ اس جواب ،مریم کی جلدواپسی، اعلامیہ اورڈھائی منٹی پریس کانفرنس سے مل سکتا ہے۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد دلائیں گے۔ مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم کمیٹی سے اپوزیشن ارکان مستعفی ہو جائیں گے۔ صادق سنجرانی پی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں ۔ کمیٹی سے استعفیٰ دیںگے تو حکومت کی صحت پر کیا اثر پڑیگا بلکہ حکومت پر غیر محسوس دباﺅ بھی ختم ہو جائے گا۔ تحریک، لانگ دھرنا‘ اسلام آباد کو لاک کرنا کیا ہوا؟ مریم اور مولاناکیلئے اس حکومت کو لمحہ بھر کیلئے برداشت کرنا بھی گوارہ نہیں جبکہ دوسری پارٹیاں اور مسلم لیگ (ن) کا ایک حصہ جوش میں بھی حواس باختہ نہیں ہوا۔ مریم و مولانا کی حکومت کے خاتمے کی خواہش ہتھیلی پر سرسوں اُگانے کی طرح پوری ہو سکتی ہے۔ آج اپوزیشن کی ساری جماعتیں استعفیٰ دیدیں جس کیلئے مولانا کی تڑپ دیدنی ہے مگر پی پی ایسا ہرگز نہیں چاہتی، ان کی بھی سندھ میں حکومت جاتی رہے گی۔ اپوزیشن اتحاد تو ابھی تک اپنا نام بھی تجویز نہیں کر سکا۔ اس میں کئی شخصیات مقدمات میںملوث اورماخوذ ہیں، کئی کو سزا بھی ہو چکی۔ بقول شخصے اتحاد کا نام تو” اتحاد مجرماں “بنتا ہے مگر جس طرح اے پی سی کاغبارہ پھٹا‘ اس سے حکومت کے مضبوط ہونے کا تاثرقوی ہوا چنانچہ اتحاد کا نام ”نصیبِ دشمناں رکھا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی مضبوطی کا ایک بھرم تھا جو قومی اسمبلی میں فنانس بل پر ووٹنگ پراوپزیشن کے 126کے مقابلے میں حکومتی حمایت میں 160ووٹ پڑنے اور اے پی سی میں اختر مینگل کی عدم شرکت سے ٹوٹ گیا۔ آج کی اپوزیشن کا یہ المیہ بھی ہے کہ اس کے رحمت شاہ آفریدی جیسے سپانسر بھی راہ فرار اختیار کر گئے، ان کے بقول نوازشریف کو بنانا آتا ہے لگانا نہیں سیکھا۔ 
اے پی سی جو حقائق سامنے آتے ان کے پیشِ نظر حکومت کو بجٹ منظور کرانے میں مشکل نہیں ہو گی۔ حکومت کا تحریک سے خاتمہ ممکن نہیں۔ حکومت اگردھاندلی زدہ ہے تو دھاندلی کس نے کی؟ اس حکومت کا کیا قصور؟ ؟ دھاندلی کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پسِ پردہ جوہاتھ تھا کیا وہاپوزیشن کیلئے دستِ شفقت بن گیا؟ اگر نہیں تو بہتر ہے اپوزیشن صلح کر لے۔ اے پی سی نے ایک رہبر کمیٹی بھی بنائی جس سے جسٹس اعجاز افضل کانواز نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران کہا شعر یاد آ گیا
 تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا۔
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے۔