وہ خوش نصیب درخت جس نے عشق رسولﷺ میں رورو کر صحابہ کرامؓ کو بھی آبدیدہ کردیا تھا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 30, 2017 | 17:49 شام

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): مسجد نبوی ﷺ میں جانے والے اہل علم مسلمان اس خوش بخت ستون استوانہ حنانہ کی تاریخ کو بخوبی جانتے ہیں کہ یہ مقام اس عظیم درخت حنانہ سے منسوب ہے جس نے اللہ کے نبی ﷺ سے جدائی پر گریہ کیا اور آپﷺ نے اس پر شفقت فرما کر اسے جنت میں بھیج دیا تھا ۔بخاری شریف اور احادیث و سیرت مبارکہ کی کتابوں میں فراق النبی ﷺ میں بلکتے ’’حنانہ ‘‘ کا ذکر موجود ہے ۔ ’’حنانہ ‘‘ سردار الانبیا کے معجزات کی صداقت کا گواہ ہے۔ 

اللہ کے پیارے

محبوب حضرت محمد مصطفے ﷺ کی ذات مبارکہ جامع المعجزات ہے۔آپ ﷺکے عشق فراق میں انسانوں کے ساتھ جمادات و نباتات اور حیوانات بھی بے تاب ہوتے ،سجدہ ریز ہوتے ،درود وسلام بھیجتے اور فراق میں روتے پائے گئے۔ امام ابوحنیفہؓ نے اپنے نعتیہ قصیدہ میں اشجار پر آپ ﷺ کے کرم کا ذکر کیا ہے ۔انہوں نے لکھا’’ اور جب آپﷺ نے درختوں کو بلایا تو وہ فرمان بردار بن کر، دوڑتے ہوئے، آپﷺ کے حکم پر لبیک کہتےآپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے‘‘
امام شرف الدین بوصیریؒ نے بھی قصیدہ بردہ شریف میں کہا ہے ’’ آپﷺ کی پکار پر اشجار، بغیر قدموں کے، اپنی پنڈلیوں پر چلتے ہوئے، آپﷺ کی طرف چل پڑے‘‘ان درختوں میں سے سب سے خوش نصیب درخت ’’حنانہ‘‘ ہے ۔احادیث و سیرت کی کتب میں میں ایسے بہت سے معجزات کا ذکر خیر موجود ہے ۔ حضور اکرمﷺ کی تعظیم و تکریم میں ’’حنانہ‘‘ نامی ایک درخت کا ذکر کئی کتابوں میں موجود ہے ۔ رسول اکرمﷺ کے لیے ایک صحابیؓ نے لکڑی کا منبر بنا کر مسجد نبویؓ میں رکھ دیا۔ آپﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے اس پر رونق افروز ہوئے تو خشک درخت حنانہ کا بنا ہوا وہ ستون، جس سے ٹیک لگا کر آپﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے، بلک بلک کر رونے لگا۔اس گریہ میں اتنا درد تھا کہ مجلس میں موجود تمام صحابہ کرامؓ آبدیدہ ہو گئے۔ آنحضرتﷺ نے جب ستون کی بے قراری ملاحظہ فرمائی تو خطبہ موخر فرما کر اس ستون کے پاس آئے اور اسے سینے سے لپٹا لیا۔ پھر صحابہ کرامﷺ سے فرمایا ’’یہ میری جدائی میں گریہ کناں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں اسے سینے سے لپٹا کر دلاسا نہ دیتا تو یہ قیامت تک اسی طرح میری جدائی کے غم میں روتا رہتا۔‘‘
حضور اکرمﷺ نے حنانہ کے اس تنے سے پوچھا ’’کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے واپس اسی باغ میں اُگا دوں جہاں سے تجھے کاٹا گیا ہے۔ وہاں تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ قیامت تک مشرق و مغرب سے آنے والے اللہ کے دوست حجاج کرام تیرا پھل کھائیں؟‘‘
اس نے عرض کیا: ’’اے پیکرِ رحمتﷺ میں تو آپﷺکی لمحاتی جدائی برداشت نہ کر سکا، قیامت تک کی تنہائی کیسے برداشت کروں گا؟‘‘
آپﷺنے پوچھا ’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے جنت میں سرسبزوشاداب درخت بنا کر اگادوں اور تو جنت کی بہاروں کے مزے لوٹے؟‘‘
ستون حنانہ نے یہ انعام قبول کر لیا۔ چنانچہ اسے منبر اقدس کے قریب زمین میں دفن کر دیا گیا۔ تدفین کے بعد حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’اس نے دارفنا پر دارِبقا کو ترجیح دی ہے۔‘‘