اپنے سپاہیوں کی جان بچانے کی کوشش میں پاک فوج کے کپتان نے اپنی جان قربان کرتے ہوئے ایساکارنامہ انجام دیا کہ جس پر پوری قوم سرفخر سے بلند ہوگیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 01, 2018 | 07:04 صبح

یہ پندرہ اکتوبر 2017 کی بات ہے۔نماز مغرب ہوچکی تھی ۔ وہ خرم ایجنسی میں ایف سی ونگ کے ہیڈکوارٹر میں وڈیو لنک پر اپنی بیگم اور چھ ماہ کے بیٹے سے بات کررہا تھا۔بیٹے کی کلکاریاں سن کر اوراس کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر وہ اور اسکی بیگم انتہائی خوش نظر آرہے تھے۔بیگم نے سوال کیا ” حسنین کب آرہے ہیں؟“
وردی پوش کپتان نے کہا ”جلد ملاقات ہوگی“ کپتان نے سکرین پر چھیڑ خانی کرتے بیٹے کا منہ چوما ،ادھر بیٹا بھی اپنے باپ کو دیکھ کر ہمک رہا تھا ،چہک رہا تھا ۔معاً پاس رکھی وائرلیس جا

گ اٹھی،کپتان نے فوری وڈیو لنک کو سائلنٹ کیا”سر ہماری ریسکیو پارٹی بارودی سرنگ سے ٹکراگئی ہے“
وہ اس لمحہ اٹھا اوروڈیو کو ایکٹو کیا،دیکھا کہ بیگم کے اجلے چہرے سے پریشانی جھانک رہی ہے۔
”اچھا پھر ملاقات ہوگی؟“ اس نے وڈیو ڈس کونیکٹ کرنا چاہی تو سوال کیا گیا” خیر تو ہے حسنین؟“
” ہاں ۔اور ہاں میرے بیٹے کو بہت سا پیار ۔۔۔پھر ملیں گے“ کپتان نے اجازت چاہی اور اپنی گن اٹھاکر جیپ میں سوار ہوا اوراسے گئیر میں ڈال کرانتہائی تیزی سے وقوعہ کی جانب دوڑا دی۔وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک کربلا اسکی منتظر ہے۔دو باردی سرنگوں سے اسکی ریسکیو ٹیم کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔اسکے جوان خون میں لت پت اورشدید زخمی تھے ۔ ابھی ایسے آثار نظر آرہے تھے کہ اس جگہ پر مزید بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہوں گی۔
اس نے جے سی او کو کال کی ”میں ریسکیو کرنے جارہا ہوں ۔دہشت گرد یہیں کہیں موجود ہوں گے،مجھے زخمیوں کو فوری واپس لے جانا ہے “
جے سی او نے کہا” سر آپ آگے مت جائیں ،یہ جگہ کلئیر نہیں۔اور آئی ای ڈی بھی ہوں گی ۔آپ اس جگہ سے فوری ہٹ جائیں“
کپتان نے جواب دیا ” میں اپنے جوانوں کو زخمی حالت میں نہیں چھوڑ سکتا “یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا کہ ایک زخمی سپاہی نے ہاتھ سے اشارہ کیا” نو سر.... پیچھے ہٹ جائیں ،خطرہ ہے“
وہ بے پرواہ ہوکر اس کے پاس گیااور اسے اٹھا کر جیپ تک لایا۔اسی طرح وہ دوسرے زخمی سپاہیوں کو اٹھااٹھا کر جب جیپ میں ڈال رہا تھا کہ اس سے آگے پھٹنے والی بارودی سرنگ کے آس پاس زخمیوں کو بھی فوری مدد فراہم کرے کہ تیسری بارودی سرنگ پاک فوج کے ایثار پیشہ بہادر کپتان کو ساتھ لیکر دھماکے سے اڑ گئی ۔اس نے تمام زخمیوں کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا تھا لیکن اسکے بدلے خود اسے اپنی جان نچھاور کرنی پڑی۔


اپنے بہادر سپاہیوں کی جان بچانے اور زخمیوں کو موت کے چنگل سے نکالنے والا کپٹن حسنین ننکانہ صاحب کے ایک درویش صفت علمی گھرانے کا چراغ تھا،اس کے والد تعلیمی تدریس سے وابستہ تھے،گھر میں تصو ف کی خوشبو مہکتی تھی۔والد محترم محمد نواز گوہر انتہائی باذوق شاعر ہیں ۔ پورا علاقہ انکی تعظیم کرتا ہے جو اب ایک شہید کی بدولت مزید بڑھ گئی ہے۔حسین شہید بچپن سے شرمیلا اور باحیا تھا۔ وطن پر جان نچاور کرنے کا وقت آیا تو اسکی حیا نے گوارہ نہیں کیا کہ وہ اپنے ساتھویں کو بے یارومددگار تڑپتا چھوڑ دے۔ویسے بھی یہ روایت پاک فوج کے ہر جوان میں نبھاہنے کی عادت ہے، میدان جنگ میں افسراپنے جوانوںکی ڈھال بن کر آگے ہوتے ہیں ۔کپٹن حسنین شہید نے یہ ثابت کیا ہے۔اسکے والد نے اپنے بیٹے کی شہادت پر اپنے جذبات و تحسین کا منظوم اظہار کیا ہے ۔ آپ بھی دیکھئے کہ ایک والد اپنے بیٹے کی شہادت پرلفظوں کے موتیوں سے بیٹے کا سہرہ کیسے لکھتے ہیں ۔
مادر وطن پر جاں نچھاور کرنا پاک فوج کے ہر جوان کا نصب العین ا ور عقیدہ ہے۔گزشتہ سترہ سال میں ہمارے جواں سال سپاہیوں سے لیکر جرنیلوں تک شہادتوں کی ایک لمبی صف بچھی ہوئی نظر آتی ہے اور دنیا کی کسی اور فوج کے پاس یہ اعزاز نہیں ہے جس نے ہزاروں افسروں کو قربان کرکے اپنے ملک میں لہو سے امن کا قرض ادا کیا ہے ۔ہمارے ہر شہید کی شہادت ایک ولولے کو تازہ کرتی اور بہادری کی داستان رقم کرکے دشمنان پاکستان کو پیغام دیتی ہے کہ اس قوم کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی جس کا عقیدہ بہادری اورشہادت ہے ۔کیپٹن حسنین شہید کے لمحہ شہادت کو دیکھیں تو آنکھیں فخرچمک جاتیں اور حوصلہ بلند ہوجاتا ہے کہ اس نے اپنے نام کی لاج رکھی اور عین اس وقت جب دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں نے پاک فوج کے سپاہیوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی،وہ اس کارزار سے بچ نکلتا جبکہ اسے اوپر سے آرڈر بھی آچکے تھے کہ وہ فی الحال دشمن کا تعاقب نہ کرے اور اس ایریا سے پرے ہٹ جائیں لیکن شہید نے کہاتھا” میں اپنے سپاہیوں کو زخمی حالت میں چھوڑ نہیں سکتا ،جب تک ان سب کو حفاظت سے میدان کارزار سے نکال نہیں لیتا میں واپس نہیں آو¿ں گا“اس نے اپنا عہد پوراکرتے ہوئے اپنے سپاہیوں کی توجان بچالی لیکن خود واپس نہیں آیا ۔