جھیلوں کی رانی :کوہ نورد کی کہانی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 12, 2018 | 15:37 شام

کشمیری مؤرخ محمد دین فوق نے کتاب’’ جموں و کشمیر‘‘ میں لکھا کہ حضرت سلیمانؑ ایک دفعہ تخت پر سوار کشمیر کی سیر پر آئے۔ علاقہ خوبصورت مگر پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔حضرت سلیمانؑ نے پانی نکالنے کاحکم دیا۔ حضرت سلیمانؑ کے حکم پر تمام دیو اور جن حاضر ہوئے مگر سب نے معذرت کرلی تا ہم کشف نام کے ایک دیو نے کہا کہ اگر اسکی محبوبہ ’’ میر‘‘ حوالے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو وہ کام کرسکتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ مان گئے۔ کشف نے وادی کشمیر سے ایک پہاڑ کاٹ کر وادی سے پانی

نکال دیا۔ یہ پانی جس راستے سے بہتا ہوا آگے گیا،اسی راستے پر آج دریائے جہلم بہہ رہا ہے۔ اسی دیو کشف اور اسکی محبوبہ میر کے نام پر کشف میر علاقے کا نام ٹھہرا اور بتدریج بگڑ کر یا سنور کر کشمیر بن گیا۔
کشمیر کا ایک جنت نظیر ٹکڑا پاکستان سے متصل اور ملحق ہے اسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔4,144مربع میل پر مشتمل آزاد کشمیر ریاست نیم خود مختارہے۔ 24اکتوبر1947ء کو بننے والی حکومت زیادہ با اختیار تھی۔ اُس وقت ریاست کی اپنی فوج ’’آزاد کشمیر رجمنٹل فورس تھی۔ اپنا جی ایچ کیو تھا۔ اپنا آرمی چیف اور جوائنٹ چیف کے علاوہ آزاد کشمیر کا اپنا وزیر دفاع تھا۔ صرف کرنسی اور وزارت خارجہ نہ تھی ۔ 25مارچ1969ء پاکستان میں صدر ایوب نے استعفیٰ دیا تو اقتدار جنرل آغا محمد یحییٰ کے سپرد کیا گیا۔ صدر جنرل یحییٰ نے آزاد کشمیر رجمنٹل فورس کو پاکستان آرمی میں ضم کر کے اسکی علیحدہ حیثیت اور تشخص ختم کر دیا ۔ریاست آزاد کشمیر کا اپنا صدر وزیر اعظم ، عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ اپنا دستور اپنا ریاست کا جھنڈا، قومی ترانہ ، اپنا دارالحکومت اور دیگر تمام تر محکمہ جات ہونے کے باوجود نیم خود مختار ریاست ہے۔
اس وقت آزاد کشمیر کے دس اضلاع نیلم، مظفر آباد، ہٹیاں، باغ، حویلی، پونچھ ، سدھنوتی، کوٹلی، میر پور اور بھمبر ہیں۔2017ء کی مردم شماری کے مطابق آزادی کشمیر کی کل آبادی40لاکھ 45ہزار تین سو چھیاسٹھ ہے۔ اگر آج کے دور کا 1947ء سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہر شعبہ زندگی میں کئی ہزار گنا زیادہ تعمیر و ترقی ہوئی، ایک انقلاب برپا ہوا ہے۔اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ بہت ہی کچھ ہوسکتا تھا۔وطن عزیز میں ایک تو ترقی کے مواقع سے بہتر فائدہ نہیں اٹھایا گیا دوسرا بد دیانتی کے باعث جو تھوڑا بہت کچھ تھا وہ بھی ضائع کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا درد دل رکھنے والا حکمران آئے جو خود دیانتدار ہو اور دیانتدار لوگوں کو حکومتی امور میں شامل کرے۔کشمیر اور آزاد کشمیر کے درج بالا اقتباس پروفیسر سردار ریاض اصغر ملوٹی کے سفر نامے ’’جھیل رتی گلی ‘‘سے لیا ہے۔ پروفیسر صاحب خود بھی سیلانی ہیں۔ انہوں نے اپنے وطن مالوف کے سوا بھی دنیا میں جہاں تک ممکن تھا سیر و سیاحت کی۔ آزاد کشمیر کے تاریخی اور خوبصورت مقام کو دیکھا وہاں کے لوگوں سے ملے اور اس خطے کے حوالے سے معلومات کے خزانے کو سیاحوں اور کوہ نور دوں کیلئے ایک کتاب کی شکل دیدی۔
وادی نیلم کے قدرتی خزانے پر ایک باب بے مثال ہے۔وادی نیلم خوبصورت ٹھنڈے اور نیلگوں شفاف پانی کے دریائے نیلم ، خوبصورت جنگلات، سر سبز و شاداب مخملی گھاس کے میدانوں، وادیوں کوہساروں، صاف و شفاف میٹھے پانی کے چشموں، بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے ندی نالوں، خوبصورت قدرتی جھیلوں، مختلف قسم کی جنگلی حیات، قیمتی پتھروں ، نایاب اور قیمتی جڑی بوٹیوں اور کاغذی اخروٹ کی وسیع پیداوار کی سر زمین ہے۔وادی نیلم میں دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں سے ایک رتی گلی جھیل بھی ہے ۔ آیئے ملوٹی صاحب کے ساتھ اسکی سیاحت کرتے ہیں:
’’ جھیل تک جانے کیلئے بیس کیمپ سے ایک ٹریک بنا ہوا ہے۔ چڑھائی سے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ جوں جوں آگے بڑھتے ہیں تو چڑھائی میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کچے ٹریک کے اطراف سر سبز و شاداب جڑی بوٹیوں سے بھرے میدان اور ڈھلوانیں ہیں۔
راستے کے کنارے بڑی تعداد میں قدرتی پھول اور جڑی بوٹیاں ہیں۔ تاحدِ نگاہ میدان اس سبزے سے بھرے ہوئے ہیں۔ رنگ رنگ کے چھوٹے بڑے پھول ہیں۔بیس کیمپ سے جھیل کا فاصلہ 3یا4کلو میٹر کے قریب ہو گا۔ اس راستے کے گرد و پیش کا اگر آپ بغور جائزہ لیں تو قسم قسم کے رنگوں والے پتھر ہیں۔ سرخ، سبز اور سیاہ رنگ کے ساتھ دیگر رنگوں کے چھوٹے بڑے پتھر ہیں۔ کچھ پتھروں کے اندر چمکتے ذرے مختلف رنگوں کے کرسٹل کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ چاروں طرف جگہ جگہ سے اترائی میں بہتے چھوٹے بڑے نالے جن کا صاف و شفاف پانی بہتے ہوئے کیا خوب منظر پیش کر رہا ہے۔
سیاحوں کے ہمراہ چڑھ کر جونہی ہم اوپر پہنچے تو ایک وسیع میدان جس کے آدھے حصے پر نیلے پانی نے قبضہ کر رکھا ہے پیچھے تمام کنارے برف سے ڈھکے ہوئے اور اسکی پشت پر سنگلاخ پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہلی نظر فطری حسن و جمال کے اس شاہکار پر پڑی تو جھوم اٹھے۔ ایک بے حد خوبصورت جھیل اور وہ بھی بہت بڑی جھیل۔ جھیل سیف الملوک سے یہ جھیل دو گناہ بڑی اوراس سے بہت ہی زیادہ خوبصورت ہے۔ جھیل کنارے پہنچے اور ایک جگہ بیٹھ کر اس قدرتی منظر کا نظارہ کرنے لگے۔ جھیل کا پانی اس قدر صاف اور شفاف کہ تہہ میں ہر چیز نظر آ رہی تھی۔ بے ساختہ کبھی ہم کھڑے ہو جاتے اور کبھی بیٹھ جاتے۔ جھیل کے حسن سے لگتا ہے کہ یہ رب روپ ہے۔ اسے جھیلوں کی رانی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔پوری جھیل نیلی نظر آتی ہے۔ اس جھیل کے شمال مغرب میں ایک مخملی گھاس کا میدان ہے‘ ایک طرف سے جھیل کا پانی نیچے آبشار کی شکل میں گرتا ہے ۔ صرف شمال اور تھوڑا سا شمال مغرب کی جانب چلنے کا راستہ ہے جبکہ باقی تمام جھیل کے کنارے برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ مشرقی اور جنوبی کناروں پر برف کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ جس کی بلندی شائد 50فٹ سے زیادہ ہو۔ اسی برف پر نئی برف پڑتی ہے گویا12ماہ تک یہ برف کے پہاڑ موجود رہتے ہیں۔ جھیل سے اس قدر وافر مقدار میں پانی آگے بہہ کر نالے کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اس نالے کو آپ کہیں سے بھی کراس نہیں کر سکتے۔ ہر سیاح جھیل دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا اقرار کرتا ہے اور یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ یہ خوبصورت مقامات بنانے والی کوئی ذات ہے۔ 
رتی گلی کی جھیل اپنی جگہ حسن و جمال میں با کمال جگہ تو ہے ہی رتی گلی بھی کیا خوبصورت منظر پیش کرتی ہے ۔یہ جھیل نہ صرف وادی نیلم یا کشمیر بلکہ میری سوچ اور فکر کے مطابق دنیا کی ایک نہایت ہی خوبصورت قدرتی جھیل ہے۔ جس طرح کسی عاشق کو اپنی محبوبہ سے عشق و محبت ہے مجھے رتی گلی کے فطری حسن و جمال سے محبت ہے۔ 14اگست 2017ء ہم اس جھیل پر گئے اس دن سے تادم تحریر مجھے دن میں کئی بار رتی گلی جھیل یاد آتی ہے اور تڑپ جاتا ہوں۔ دل چاہتا ہے پر لگے ہوں تواڑ کو فوراً رتی گلی کی مالیوں پر جااتروں اور رتی گلی جھیل کے نیلگوں پانی اسکی وسعت و خوبصورتی کے نظارے کروں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ رات کے وقت جب اس جگہ مکمل سکوت اور تنہائی ہوتی ہے اس جھیل پر دیو پریاں اور جنات جھیل کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہوتے ہونگے۔ بلا شبہ میں نے زندگی میں نے اس سے خوبصورت کوئی جگہ نہیں دیکھی۔ اسکے فطری حسن و جمال نے ہی یہ کتاب لکھنے پر مجبور کیا۔
مظفر آباد سے تقریبا63کلو میٹر کے فاصلے پر کیرن سے آگے دواریاں قصبہ ہے یہاں سے18کلو میٹر پر رتی گلی بیس کیمپ ہے اور بیس کیمپ تک دواریاں سے جیپ ٹریک ہے۔ جیپ بیس کیمپ تک جاتی ہے مگر اس 18کلو میٹر کا سفر اتنا خطرناک ہے کہ خدا اور تمام قرآنی آیات اور دعائیں بھی یاد آتی ہیں۔ جس مؤرخ نے بھی کشمیر کی قدرتی جھیلوں کا ذکر کیا ہے اس نے رتی گلی جھیل کو سرفہرست رکھا‘‘۔ 
کتاب پڑھ کر میرا اپنا دل بھی اس جھیل دید کو مچل رہا ہے۔سر دست کتاب کا مطالعہ کر کے دل بہلایا جارہا ہے۔ نیلم ویلی کے خزانوں پر سنڈے میگزین میں فیچر لکھنے کا ارداہ ہے۔رتی گلی جھیل جانے تک قارئین آپ بھی پروفیسر ملوٹی صاحب کا سفر نامہ ’’جھیل رتی گلی‘‘ کا مطالعہ فرمائیے جس کی قیمت صرف تین سو روپے جوایف آئی پرنٹرز راولپنڈی نے شائع کی ہے۔کتاب خوبصورت تصاویر سے مزین ہے۔