مجید نظامی کی پوری زندگی آزادی صحافت کیلئے جدوجہد سے عبارت ہے۔ آج مجید نظامی کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے۔ اتفاق سے آج کی حکومت کی طرف سے میڈیا کورٹس بنانے کی خبر شائع ہوئی ہے۔ پاکستان میں میڈیا کا کوئی اس قدر اژدہام نہیں کہ اسکے بے کنار ہوتے معاملات کیلئے ریگولر عدلیہ محدود ثابت ہو۔ میڈیا تو سُکڑ رہا ہے جبکہ حکومت اسکے معاملات نمٹانے کے نام پر میڈیا کورٹس قائم کر رہی ہے۔ میڈیا کے جس حصے کی طرف سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اسکی گرفت لازم ہے، اس کیلئے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ ایک
اتھارٹی بھی حکومت نے بنا رکھی ہے۔ عدالتیں موجود ہیں۔ انکے ہوتے ہوئے میڈیا کورٹس کی نہ جانے حکومت کو ضرورت کیوں پیش آگئی۔ کچھ حلقوں کی طرف سے میڈیا کورٹس کی تشکیل کو ’’منہ زور ‘‘ میڈیا کو نکیل ڈالنے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے ذرائع ابلاغ کے معاملات نمٹانے کیلئے میڈیا کورٹس کے قیام کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان عدالتوں کا مقصد میڈیا انڈسٹری کے تنازعات کو ان خصوصی عدالتوں میں لے جایا جائے تاکہ فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ آجر اور اجیر کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے پالیسی بنا رہے ہیں جس سے میڈیا ورکرز کے مسائل حل اور مالکان کی مشکلات ختم کرینگے۔ پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر بلاامتیاز عملدرآمد ضروری ہے۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی جانب سے میڈیا کورٹس متعارف کرانے کی تجویز پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ سی پی این ای میڈیا سے متعلق امتیازی قوانین سازی کی سخت مخالف ہے اور اسی بنا پر سابق وفاقی وزیراطلاعات کی جانب سے پیش کردہ ’’پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ (پی ایم آر اے) کے مسودے کو بھی مسترد کیا تھا۔ سی پی این ای کے عہدیداروں کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہاگیا کہ میڈیا سے متعلق شکایات اور تنازعات کو نمٹانے کیلئے پریس کونسل آف پاکستان (پی سی پی)، پیمرامیں ’’کمیشن آف کمپلینٹ‘‘، ویج بورڈ عملدرآمد ٹریبونل سمیت متعدد ادارے، قوانین اور قواعد موجود ہیں لہٰذا میڈیا کورٹس کا قیام قطعاً غیرضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت بھی میڈیا اور صحافی انتہائی سخت قسم کے براہ راست اور بالواسطہ دباؤ کا شکار ہیں جبکہ جمہوری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ میڈیا کو درپیش دباؤ سے نجات دلانے کیلئے مناسب اقدام کرے، میڈیا کے معاملات کو ملک کے عام قوانین کے تحت ہی چلایا جائے اور میڈیا کورٹس جیسے امتیازی اقدامات جیسی تجاویز کو فوری واپس لیا جائے۔اپنے بیان میں اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون اور سیکریٹری جنرل سرمد علی نے کہا کہ مجوزہ میڈیا کورٹس میڈیا کا بازو مروڑنے کیلئے ادارہ جاتی اضافہ ہونگی۔ میڈیا پہلے ہی پریس ایڈوائس اور حکمران حلقوں کے مختلف دباؤ کا سامنا کررہا ہے لہٰذا وفاقی حکومت فوری طور پر اس تجویز کو واپس لے۔ اے پی این ایس کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ عوام کے حقوق کیلیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔