مجید نظامی:آزادیٔ صحافت کل اور آج

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 26, 2019 | 20:11 شام

مجید نظامی کی پوری زندگی آزادی صحافت کیلئے جدوجہد سے عبارت ہے۔ آج مجید نظامی کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے۔ اتفاق سے آج کی حکومت کی طرف سے میڈیا کورٹس بنانے کی خبر شائع ہوئی ہے۔ پاکستان میں میڈیا کا کوئی اس قدر اژدہام نہیں کہ اسکے بے کنار ہوتے معاملات کیلئے ریگولر عدلیہ محدود ثابت ہو۔ میڈیا تو سُکڑ رہا ہے جبکہ حکومت اسکے معاملات نمٹانے کے نام پر میڈیا کورٹس قائم کر رہی ہے۔ میڈیا کے جس حصے کی طرف سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اسکی گرفت لازم ہے، اس کیلئے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ ایک

اتھارٹی بھی حکومت نے بنا رکھی ہے۔ عدالتیں موجود ہیں۔ انکے ہوتے ہوئے میڈیا کورٹس کی نہ جانے حکومت کو ضرورت کیوں پیش آگئی۔ کچھ حلقوں کی طرف سے میڈیا کورٹس کی تشکیل کو ’’منہ زور ‘‘ میڈیا کو نکیل ڈالنے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے ذرائع ابلاغ کے معاملات نمٹانے کیلئے میڈیا کورٹس کے قیام کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان عدالتوں کا مقصد میڈیا انڈسٹری کے تنازعات کو ان خصوصی عدالتوں میں لے جایا جائے تاکہ فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ آجر اور اجیر کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے پالیسی بنا رہے ہیں جس سے میڈیا ورکرز کے مسائل حل اور مالکان کی مشکلات ختم کرینگے۔ پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر بلاامتیاز عملدرآمد ضروری ہے۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی جانب سے میڈیا کورٹس متعارف کرانے کی تجویز پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ سی پی این ای میڈیا سے متعلق امتیازی قوانین سازی کی سخت مخالف ہے اور اسی بنا پر سابق وفاقی وزیراطلاعات کی جانب سے پیش کردہ ’’پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ (پی ایم آر اے) کے مسودے کو بھی مسترد کیا تھا۔ سی پی این ای کے عہدیداروں کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہاگیا کہ میڈیا سے متعلق شکایات اور تنازعات کو نمٹانے کیلئے پریس کونسل آف پاکستان (پی سی پی)، پیمرامیں ’’کمیشن آف کمپلینٹ‘‘، ویج بورڈ عملدرآمد ٹریبونل سمیت متعدد ادارے، قوانین اور قواعد موجود ہیں لہٰذا میڈیا کورٹس کا قیام قطعاً غیرضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت بھی میڈیا اور صحافی انتہائی سخت قسم کے براہ راست اور بالواسطہ دباؤ کا شکار ہیں جبکہ جمہوری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ میڈیا کو درپیش دباؤ سے نجات دلانے کیلئے مناسب اقدام کرے، میڈیا کے معاملات کو ملک کے عام قوانین کے تحت ہی چلایا جائے اور میڈیا کورٹس جیسے امتیازی اقدامات جیسی تجاویز کو فوری واپس لیا جائے۔اپنے بیان میں اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون اور سیکریٹری جنرل سرمد علی نے کہا کہ مجوزہ میڈیا کورٹس میڈیا کا بازو مروڑنے کیلئے ادارہ جاتی اضافہ ہونگی۔ میڈیا پہلے ہی پریس ایڈوائس اور حکمران حلقوں کے مختلف دباؤ کا سامنا کررہا ہے لہٰذا وفاقی حکومت فوری طور پر اس تجویز کو واپس لے۔ اے پی این ایس کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ عوام کے حقوق کیلیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

آزادی ٔ صحافت کیلئے جدوجہد کی ایک تاریخ ہے۔ اس حوالے سے جناب مجید نظامی نے آج سے کئی دہائیاں قبل جو کہا تھاوہ آج کے حالات پر اس طرح منطبق ہورہا ہے جیسے وہ یہ سارا کچھ آج کے تناظر میں کہہ رہے ہیں۔آئیے انکی کتاب ’’جب تک میں زندہ ہوں‘‘ کے ایک اقتباس پر نظر ڈالتے ہیں: ’’ملک بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو پابند بنایا جا رہا ہے اور آزادی صحافت کے نعرے بھی بلند کئے جا رہے ہیں اوریہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اخبارات کو جو آزادی آج حاصل ہے‘ پہلے کبھی نہ تھی۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کو جو بھی آزادی حاصل ہے‘ اس میں اخبارات کے مالکان اور کارکنوں کی نصف صدی سے زائد عرصہ تک بے پناہ قربانیاں شامل ہیں۔ جنہوں نے سڑکوں پر مظاہرے کرکے پولیس کی گولیاں‘ آنسو گیس‘ ڈنڈے اور لاٹھیاں کھا کھا کر اسے حاصل کیا ہے۔ کسی حکمران نے یہ آزادی تحفہ میں یا چاندی کی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی۔ یہ آزادی صحافیوں نے اور اخباری مالکان نے مسلسل جدوجہد کرکے قید و بند کی سختیاں اور اشتہارات کی بندش جیسے مراحل طے کرنے کے بعد حاصل کی ہے اور اب پاکستان کے کسی بھی حکمران کی مجال نہیں کہ وہ اس آزادی کو چھین سکے اور نہ ہی اخبارات کو اشتہارات کی بندش کا اختیار استعمال کرکے اپنے احکامات کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔ پھر آج اشتہار نہ چھاپنے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ تو کل خبر نہ شائع کرنے کیلئے ڈالا جائیگا۔‘‘

مجید نظامی جہاں آزادی صحافت کیلئے ہمہ تن نبرد آزما رہے وہیں، جرأت بہادری کا استعارہ اور حب الوطنی کا مرقع اور پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کیلئے برہنہ بُرہان تھے۔دشمن کو للکارنے سے کبھی چوکتے۔جنرل ضیاء الحق نے ایک مرتبہ نظامی صاحب کو بھارت ساتھ لے جانے کی دعوت دی تو نظامی صاحب نے کہا جرنیل صاحب آپ ٹینک پر بیٹھ کر جائینگے تو میں ساتھ چلتا ہوں۔ جنرل اس جواب پر خاموش رہے۔ نظامی صاحب کی وفات سے چند روز قبل ایک بھارتی صحافی ان سے ملاقات کیلئے لاہور آفس آئے۔ اس نے کہا نظامی صاحب آپ نے ٹینک پر بھارت جانے کی شرط رکھی ہے، آپ کو لے جانے کیلئے ایک ٹینک بھجوا دیں؟ نظامی صاحب اسکے طنز کو سمجھ گئے مگر ادھار رکھنے والے نہیںتھے، اپنی کرسی سے اٹھے، انہیں بھی کہا ذرا اٹھئے، اِدھر تشریف لایئے۔ وہ ان کو آفس کے اندر دیوار پر لگی تصویروں کے قریب لے گئے، ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’مہاراج! آپ کو ٹینک بھجوانے کی ضرورت نہیں، ہم اس پر آجائینگے۔‘‘ یہ بھارتی ٹینک کی تصویر تھی جو بھارتی فوج 65ء کی جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئی تھی اس تصویر میں نظامی صاحب اس ٹینک پر کھڑے تھے۔